ایک مومن دوسرے مومن کے حق میں آئینہ ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أحدكم مرآة أخيه فإن رأى به أذى فليمط عنه . رواه الترمذي وضعفه . وفي رواية له ولأبي داود المؤمن مرآة المؤمن والمؤمن أخو المؤمن يكف عنه ضيعته ويحوطه من ورائه
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کے حق میں آئینہ کی طرح ہوتا ہے لہذا اگر تم اس میں کوئی برائی دیکھو تو اس سے اس برائی کو دور کرو یعنی جس مسلمان میں کوئی عیب اور برائی دیکھو یا اس کو غلط راہ پاؤ تو اس راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کرو اور خواہ نرمی و شفقت کے ساتھ خواہ زجر و تنبیہ کے ذریعہ اور خواہ اس کو معتوب کر کے غرضیکہ اصلاح و نصیحت کے جو شرائط و قواعد ہیں ان کے مطابق جس طرح بھی ہو سکے اس کو برائی سے باز رکھنے کی سعی کرو، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اس کو ضعیف قرار دیا ہے یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کو مذکورہ الفاظ میں روایت کرنا ضعف سے خالی نہیں ہے اور ترمذی کی ایک دوسری روایت نیز ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دور کرتا ہے جس میں اس کے لئے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس طرح آئینہ دیکھنے والا اس آئینہ میں اپنے خد و خال کو دیکھتا ہے اور اس میں جو عیب و خرابی ہوتی ہے اس سے آگاہ ہو جاتا ہے خواہ وہ عیب کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو اسی طرح ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے حق میں اتنا ہی حساس اور بہی خواہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے بھائی مسلمان میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو کسی برائی میں مبتلا پائے تو اس کو فورا آگاہ کر دے اور اس عیب و برائی کی مضرت و ہلاکت کو واضح کر دے اور یہ آگاہ واضح کرنا پوشیدہ طور پر ہو تاکہ اس کے اس عیب سے دوسرے لوگ مطلع نہ ہوں اور وہ دنیا کی نظر میں ذلیل و رسواء نہ ہو جیسا کہ آئینہ اپنے دیکھنے والے کو اس عیب سے اس طرح آگاہ کرتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کو معلوم نہیں ہوتا نیز اس مسلمان کو بھی چاہیے کہ جب کوئی مسلمان اس کو اس کے کسی عیب سے آگاہ کرے تو فورا اس عیب پر مطلع ہو جائے اور اپنی ذات کو اس کے داغ سے پاک و صاف کرے جیسا کہ کوئی شخص آئینہ میں اپنے چہرے پر کسی داغ و دھبہ کو دیکھ کر فورا مطلع ہو جاتا ہے اور چہرے کی صفائی و زیبائش کی کوشش کرتا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ مسلمان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جو قلبی و روحانی تعلق ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے کسی بھائی مسلمان کو کسی برائی، یا کسی عیب اور کسی ناشائستہ حرکت میں مبتلا دیکھے تو اس احساس کے ساتھ کہ یہ میرا بھائی نقصان و تباہی کے راستہ پر لگ گیا ہے اور اس کا نقصان میرا نقصان ہے اور اسی کی تباہی میری تباہی ہے اس کو اس عیب و برائی سے بچانے کی کوشش کرے کیونکہ یہ بہی خواہی اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و تعاون ایمان و اسلام کا منشاء ہے اور اس ارشاد گرامی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تقاضا یہ ہے کہ ہمدردی ملت کی فلاح و بہبود اور دینی و دنیاوی کامرانیوں اور سعادتوں کا سرچشمہ ہے غالباً اسی بناء پر مولانا روم نے فرمایا کہ اس وقت تک خیر و بھلائی پر ہیں جب تک وہ ایک دوسرے کے احوال کی اصلاح کی سعی و کوشش کرتے ہیں جب بھی وہ ایک دوسرے کی طرف سے بے پرواہ اور ایک دوسرے کے احوال سے اتفاق کر لیں گے ہلاکت میں پڑ جائیں گے۔ حدیث کے آخری الفاظ ویحوط من وراہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمانی اخوت کا مظہر ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عدم موجودگی میں بھی اس کی عزت و آبرو اور اس کی جان و مال کا تحفظ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے چنانچہ کوئی مسلمان نہ صرف یہ کہ خود کسی مسلمان کی غیبت اور عیب جوئی نہیں کرتا کیونکہ اگر کسی شخص کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہے تو وہ اس غیبت کرنے سے منع کرتا ہے اور اس کی طرف سے عیب جوئی پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اس کی تردید و تنقیص کرتا ہے اور اس بات کا کوشاں رہتا ہے کہ اس کے سامنے کسی مسلمان بھائی کے جانی و مالی حقوق اور حثییت عرفی کو نقصان نہ پہنچے۔