مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان ۔ حدیث 912

کسی شخص کو اپنے سامنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرنے دو

راوی:

وعن أسماء بنت يزيد قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذب عن لحم أخيه بالمغيبة كان حقا على الله أن يعتقه من النار . رواه البيهقي في شعب الإيمان

" اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیٹھ پیچھے اس کا گوشت کھانے سے باز رکھے یعنی اس کے سامنے اگر کوئی شخص مسلمان بھائی کی برائی اور غیبت کر رہا ہو تو اس کو اس حرکت سے روکے تو اس کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرے گا۔ (بہیقی)

تشریح
غیبت کرنے کو بطور گوشت کنایہ کھانے سے تعبیر کیا ہے یعنی جو شخص کسی کی غیبت کرتا ہے تو گویا وہاس کا گوشت کھاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں غیبت کی برائی ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے کہ " ایحب احد کم ان یاکل۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔ کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے۔غیبت کرنے کو گوشت کھانے سے تشبیہ دینے کا سبب یہ ہے کہ غیبت کرنا دراصل اس کی آبرو ریزی کرنا ہے اور آبرو چونکہ جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے لہذا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کے ذریعہ آبرو ریزی کی اس نے گویا اس کو ہلاک کر دیا اور اس کا گوشت کھا لیا ۔ بظاہر یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ لفظ بالمغیبۃ کا تعلق لفظ ذب سے ہے اور غیبت یعنی عدم موجودگی کے مفہوم میں ہے تاہم احتمال بھی ہے کہ بالمغیبۃ کا تعلق بلحم اخیہ سے ہو اور مفہوم کے اعتبار سے غیبت یعنی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرنے کے معنی میں ہو اس صورت میں عبارت گویا یوں ہوں گی من ذب عن اکل لحم اخیہ بالمغیبۃ یعنی جو شخص کسی اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کے ذریعہ اس کا گوشت کھانے سے باز رکھے۔ لیکن حدیث کا حاصل دونوں صورتوں میں ایک ہی رہے گا وہ یہ کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے باز رکھنے والے کی فضیلت کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔
" دوزخ کی آگ سے آزاد کرے " کا مطلب یا تو یہ ہے کہ اس شخص کو شروع ہی میں دوزخ کی آگ سے نجات یافتہ قرار دیا جائے گا یا یہ کہ اگر وہ شخص اپنے گناہوں کے سبب دوزخ میں داخل کیا جائے گا تو اس کو وہاں عذاب پورا کئے بغیر نکال لیا جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں