عقیقہ کی اہمیت
راوی:
وعن الحسن عن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الغلام مرتهن بعقيقته تذبح عنه يوم السابع ويسمى ويحلق رأسه " . رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي لكن في روايتهما " رهينة " بدل " مرتهن " وفي رواية لأحمد وأبي داود : " ويدمى " مكان : " ويسمى " وقال أبو داود : " ويسمى " أصح
" اور حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہر ( بچہ ) اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے ( اس کی پیدائش کے ) ساتویں دن اس کے ( عقیقہ کے ) لئے ( جانور ) ذبح کیا جائے ( ساتویں ہی دن ) اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے ۔ " اس روایت کو احمد ، ترمذی ، نسائی نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نسائی کی روایت میں مرتھن کے بجائے رھینۃ ہے اور احمد و ابوداؤد کی ایک روایت میں یسمی کے بجائے و یدمی ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ لفظ یسمی ہی زیادہ صحیح ہے ۔ "
تشریح
ظاہر ہے کہ بچہ چونکہ مکلف نہیں ہے کہ اگر اس کا عقیقہ نہ کیا جائے تو اس کے ماخوذ و معتوب ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا ، اس صورت میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عقیقہ کے عوض بچے کے گروی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ چنانچہ حضرت امام احمد نے تو اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ بیان کیا ہے ، کہ جس بچے کا عقیقہ نہیں ہوتا اور وہ کم سنی میں مر جاتا ہے تو اس کو اپنے والدین کی شفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ جب تک والدین اس کا عقیقہ نہ کر دیں وہ اس کے حق میں شفاعت کرنے کا اہل نہیں ہو گا ۔ بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب تک والدین بچہ کا عقیقہ نہیں کرتے اس کو بھلائیوں سلامتی آفات اور بہتر نشو نما سے باز رکھا جاتا ہے اور پھر اس کے جو برے نتائج پیدا ہوتے ہیں وہ حقیقت میں والدین کے مواخذہ کا سبب بنتے ہیں کہ ترک عقیقہ انہوں نے ہی کیا ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ گروی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے بالوں وغیرہ کی گندگی و اذیت میں مبتلا رہتا ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے ۔ فامیطوا عنہ الاذی ( بچے کو اذیت سے ہٹاؤ ) یعنی اس کے بال میل کچیل اور خون وغیرہ صاف کرو ) لہٰذا جب بچہ کا عقیقہ ہوتا ہے تو وہ گویا سر کے بال وغیرہ صاف ہو جانے سے اس اذیت سے نجات پا جاتا ہے ۔
لفظ یدمی ۔ یا کے پیش دال کے زبر اور میم مفتوحہ کی تشدید کے ساتھ تدمیہ سے مشتق ہے جس کے معنی ، خون آلود کرنے ۔ " کے ہیں ۔ لہٰذا ایک روایت میں ویسمی ( اور اس کا نام رکھا جائے ) کی جگہ ویدمی ہے ۔ لیکن جیسا کہ ابوداؤد نے کہا ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس جگہ لفظ ویسمی ہی ہو نا چاہئے ۔ تاہم قتادہ نے ویدمی کی تشریح یہ کی ہے کہ جب عقیقہ کے جانور کو ذبح کیا جائے تو اس کے تھوڑے سے بال لے کر اس کی گردن کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ ( بال ) اس کے خون سے آلودہ ہو جائیں جو ذبح کے وقت اس جانور کی گردن کی رگوں سے نکلے اور پھر وہ خون آلودہ بال اس بچے کی چندیا پر اس طرح رکھ دیا جائے کہ خون اس کی چندیا پر ایک لکیر کی صورت میں بہے اور اس کے بعد بچہ کا سر دھو کر منڈوا دیا جائے ۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ یہ ( تدمیہ ) نہ کیا جائے کیونکہ روایت میں لفظ یدمی دراصل کسی روای کی طرف سے تحریف ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تدمیہ ثابت ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیقہ کیا ، لیکن یہ عملی ( تدمیہ ) نہیں کیا تھا ، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل دراصل زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی جس کو منسوخ قرار دیا گیا ٫ جیسا کہ اس باب کی تیسری فصل میں آنے والی حدیث سے واضح ہو گا ۔
علماء نے لکھا ہے کہ ابوداؤد کی روایت میں لفظ یدمی کا منقول ہونا حدیث کے ایک راوی ہمام کا وہم ہے اور قتادہ نے اس لفظ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے وہ منسوخ ہے ، خطابی نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے بدن سے اذیت اور سوکھی پلیدی کو دور کرنے کا حکم فرمایا تو اس کے سر کو تر خون سے آلودہ کر کے نجس کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے ، تاہم بعض علماء نے بچے کے سر کو خون سے آلودہ کرنے کے بجائے خلوق اور زعفران جیسی خوشبوؤں سے لتھیڑنا نقل کیا ہے ۔