مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان ۔ حدیث 906

بہن بیٹی کی پرورش کرنے کی فضیلت

راوی:

وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من آوى يتيما إلى طعامه وشرابه أوجب الله له الجنة البتة إلا أن يعمل ذنبا لا يغفر . ومن عال ثلاث بنات أو مثلهن من الأخوات فأدبهن ورحمهن حتى يغنيهن الله أوجب الله له الجنة . فقال رجل يا رسول الله واثنتين ؟ قال واثنتين حتى قالوا أو واحدة ؟ لقال واحدة ومن أذهب الله بكريمتيه وجبت له الجنة قيل يا رسول الله وما كريمتاه ؟ قال عيناه . رواه في شرح السنة

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اپنے کھانے پینے میں کسی یتیم کو شریک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس شخص کو بلا شک و شبہ جنت کا مستحق گردانتا ہے الاّ یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کرے جو بخش جانے کے قابل نہ ہو اور جو شخص تین بیٹیوں یا ان ہی کی طرح تین بہنوں کی پرورش کرے اور پھر ان کی تربیت کرے اور ان کے ساتھ پیارو شفقت کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ ان کو بے پرواہ بنا دے۔ یعنی وہ بڑی ہو جائیں اور بیاہ دی جائیں تو اللہ اس کو جنت کا مستحق گردانتا ہے یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ کیا دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے پر بھی یہ اجر ملتا ہے آپ نے فرمایا ہاں دو پر بھی یہ اجر ملتا ہے، راوی کہتے ہین کہ اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں بھی سوال کرتے تو آپ یہی جواب دیتے کہ ہاں ایک پر بھی یہی اجر ملتا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس شخص کی دو پیاری چیزیں لے لے وہ بھی جنت کا مستحق گردانا جاتا ہے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دو پیاری چیزوں سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی دو آنکھیں۔ (شرح السنہ)

تشریح
جو گناہ بخشے جانے کے قابل نہ ہو اس سے مراد شرک اور حقوق العباد ہیں گویا آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ شخص کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جو توبہ و استغفار وغیرہ کے بغیر بخشا نہیں جاتا ہو تو اس کو جنت کا مستحق نہیں گردانا جائے گا، اس میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ وہ تمام گناہ جن کا تعلق اللہ کے حق سے ہے بخش دیئے جائیں گے مگر شرک کے گناہ کو نہیں بخشا جاتا۔
" اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں سوال کرتے" یہ بات اس راجح و مختار مسلک کی روشنی میں تو بالکل واضح ہے کہ جس میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ احکام شرعیہ کا نفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صوابدید پر ہے کہ آپ جس طرح چاہیں نافذ فرمائیں اور جس کو چاہیں مقید و مستثنی قرار دیں لیکن اس قول کو تسلیم نہیں کرتے وہ مذکورہ عبارت کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ حضور نے صحابہ کے مذکورہ جواب میں جو بات فرمائی وہ وحی الٰہی کی بنیاد پر تھی کہ سائلین نے اپنے سوال کے ذریعہ گویا اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جو ثواب تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش و تربیت کرنے پر ملتی ہے کاش وہی ثواب دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے کی صورت میں بھی ملے، چنانچہ اللہ نے ان کی اس خواہش کے مطابق وحی نازل فرمائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرمایا جیسا کہ اور بہت سی حدیثوں میں بھی اسی طرح کی صورت حال منقول ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں