جو چیز بھی خون بہا دے اس سے ذبح کرنا جائز ہے
راوی:
وعن رافع بن خديج قال : قلت : يا رسول الله إنا لاقوا العدو غدا وليست معنا مدى أفنذبح بالقصب ؟ قال : " ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك عنه : أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبش " وأصبنا نهب إبل وغنم فند منها بعير فرماه رجل بسهم فحبسه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فافعلوا به هكذا "
" اور حضرت رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کل دشمن ( یعنی کفار ) سے ہمارا مقابلہ ہونے والا ہے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ( یعنی ہو سکتا ہے کہ جنگی ہنگاموں کی وجہ سے ہمارے پاس چھریاں موجود نہ رہیں اور ہمیں جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس صورت میں ) کیا ہم کھپچ ( کھپچی) سے ذبح کر سکتے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس چیز سے خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس کو کھا سکتے ہو ( یعنی اس جانور کو کھانا جائز ہے جو کسی بھی ایسی چیز سے ذبح کیا گیا ہو جس سے خون بہہ جائے خواہ وہ لوہا ہو یا کوئی اور چیز ) مگر دانت اور ناخن کے ذریعہ ( ذبح کرنا جائز نہیں ہے اور میں تمہیں ان دونوں کے بارے میں بتاتا ہوں ( کہ ان کے ذریعہ ذبح کرنا کیوں جائز نہیں ہے ) تو ( سنو کہ ) دانت تو ہڈی ہے اور جہاں تک ناخن کا تعلق ہے تو وہ حبشیوں کی چھری ہے ۔ ( حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دشمن کے ) کچھ اونٹ اور بکریاں لوٹ میں ہمارے ہاتھ آئیں ، ان میں سے ایک اونٹ ( بھڑک کر ) بھاگ نکلا ، لیکن ( ہم میں سے ) ایک شخص نے تیر مار کر اس کو روک دیا ( یعنی وہ اونٹ تیر کھا کر زمین پر ڈھر ہو گیا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ دیکھ کر ) فرمایا " ان اونٹوں میں بعض اونٹ بھی اس طرح انسانوں سے بھڑکنے والے ہوتے ہیں جس طرح جنگلی جانور ۔ انسانوں سے بھڑکتے ہیں ، لہٰذا اگر ان اونٹوں میں سے کوئی اونٹ تمہارے قبضے سے نکل بھاگے تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح
" دانت تو ہڈی ہے " یعنی دانت چونکہ ہڈی ہے اور ہڈی سے ذبح کرنا درست نہیں ہے اس لئے دانت کے ذریعہ ذبح کیا ہوا جانور کھانا جائز نہیں ہوگا ۔
شیخ ابن صلاح کہتے ہیں کہ اس موضوع پر بہت زیادہ تحقیق و تفتیش اور غور و فکر کے باوجود میں یہ جاننے میں ناکام رہا ہوں کہ ہڈی کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت کا کیا مطلب ہے اور اس کی کیا وجہ ہے ! شیخ عبدالسلام سے بھی اس طرح کی بات منقول ہے ، جہاں تک حدیث کا تعلق ہے اس میں بھی صرف یہی فرمایا گیا ہے کہ دانت سے ذبح کرنا اس لئے درست نہیں کہ وہ ہڈی ہے اس کے علاوہ اور کسی ظاہری علت و سبب کی طرف اشارہ نہیں ہے لیکن حضرت امام نووی نے ہڈی سے ذبح کرنے کی ممانعت کی یہ علت بیان کی ہے کہ اگر ہڈی سے ذبح کیا جائے گا تو وہ ہڈی، ذبیحہ کے خون سے نجس ہو جائے گی اور ہڈی کو نجس و ناپاک کرنے کی ممانعت منقول ہے کیونکہ ( ) ( ہڈی ) کو جنات کی خوراک بتایا گیا ہے ۔
" وہ حبشیوں کی چھری ہے " یہ گویا ناخن سے ذبح کرنے کی علت ہے ، یعنی اگر ناخن کے ذریعہ ذبح کیا جائے گا تو اس میں حبشیوں کی مشابہت اختیار کرنا لازم آئے گا کیونکہ ناخن کے ذریعہ جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھانا حبشیوں کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ حبشی غیر مسلم ہیں ، جب کہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کے طور طریقوں کو اختیار نہ کریں بلکہ ان کے خلاف کریں !
واضح رہے کہ دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت تینوں آئمہ کے نزدیک مطلق ہے ، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ان دانتوں اور ناخنوں سے ذبح کرنا تو جائز نہیں ہے جو اپنی جگہ پر یعنی منہ اور انگلیوں میں ہوں ہاں جو دانت اور ناخن اپنی جگہ سے اکھڑ کر ( منہ اور انگلیوں سے ) الگ ہو چکے ہوں ان کے ذریعہ ذبح کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے تاہم اس ذبیحہ کا گوشت کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ تینوں آئمہ کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جس میں دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت کسی قید اور کسی استثناء کے بغیر منقول ہے ، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ انھر الدم بما شئت اور وافر الاوداج۔ اور جہاں تک حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حضرت امام اعظم کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث بغیر اکھڑے ہوئے دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے پر محمول ہے کیونکہ حبشیوں کا یہی طریقہ تھا ۔
" تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو " کا مطلب یہ ہے کہ اگر گھر کا پالتو کوئی جانور جیسے اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ بھاگ کھڑا ہو تو وہ ذبح کے معاملہ میں وحشی جانور کے شکار کی مانند ہو گا کہ جس طرح وحشی جانور پر بسم اللہ پڑھ کر مثلا تیر چلایا جائے تو وہ تیر اس جانور کے جسم کے جس حصہ پر بھی لگ کر اس کو ختم کر دے گا وہ ذبیحہ کے حکم میں ہو جائے گا ، اسی طرح اس بھاگنے والے پالتو جانور کا سارا جسم اور اس کے سارے اعضاء بھی " ذبح کی جگہ " ہوں گے، چنانچہ بسم اللہ پڑھ کر اس پر چلایا جانے والا تیر اس کے جسم کے جس حصے میں لگ کر اس کو ختم کر دے گا اس کا گوشت حلال ہو گا ۔ اور یہی حکم اس صورت میں ہے جب کہ اونٹ وغیرہ کنوئیں یا اس طرح کے کسی اور کھڈ وغیرہ میں گر پڑیں !یہاں خاص طور پر صرف اونٹ کا ذکر شاید اس لئے کیا گیا ہو کہ اس میں تو حش بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ " ذبح" کی دو قسمیں ہیں ، ایک قسم تو اختیاری ہے اور دوسری قسم اضطراری ہے اختیاری کی ایک صورت تو جانور کے لیہ اور لحیتین کے درمیان کسی دھار دار چیز جیسے چھری وغیرہ سے جراحت کے ساتھ رگوں کو کاٹنے کی ہوتی ہے اور دوسری صورت نحر کے ساتھ یعنی اونٹ کے سینے میں نیزہ وغیرہ مارنے کی ہوتی ہے ، اور اضطراری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جانور کے جسم کے کسی بھی حصے کو زخمی کر کے مار دیا جائے ۔