خیرخواہی کی اہمیت وفضیلت
راوی:
عن جرير بن عبد الله قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة وإيتاء الزكاة والنصح لكل مسلم . متفق عليه
" اور حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے اس بات پر بیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا زکوۃ ادا کروں گا اور ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کروں گا۔ ( بخاری ومسلم)
تشریح
اللہ تعالیٰ کی تمام تر عبادت و طاعت کا تعلق دو ہی چیزوں سے ہے ایک تو حقوق اللہ ، دوسرے حقوق العباد ، لہذا حضرت جریر نے حقوق اللہ میں خاص طور پر ان عبادات کا ذکر کیا جو تمام بدنی اور مالی عبادتوں میں شہادت کے بعد سب سے اعلی و افضل ہیں اور ارکان اسلام میں سے اہم ترین رکن ہیں یعنی نماز اور زکوۃ جہاں تک روزہ اور حج کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس وقت حضرت جریر نے بیعت کی ہو اس وقت تک یہ دونوں روزہ اور حج مسلمانوں پر فرض نہ قرار دیئے گئے ہوں اسی طرح حقوق العباد سے متعلق اس چیز کو ذکر کیا جس کے دائرے میں بندون کے تمام حقوق آ جاتے ہیں یعنی خیر خواہی۔
انہی حضرت جریر کا ایک واقعہ اس موقع پر نہایت مطابق ہے اور جس سے ان کی مذکورہ بالا بیعت کا عملی نمونہ سامنے آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جریر نے ایک گھوڑا تین سو درہم کے عوض خرید لیا، انہوں نے بیچنے والے سے کہا کہ تمہارا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ قیمت ہے تم اس کی قیمت چار سو درہم لو گے؟ اس نے کہا ابن عبداللہ تمہاری مرضی پر موقوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو گھوڑا چار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے تم کیا اس کی قیمت پانچ سو درہم لینا پسند کرو گے؟ وہ اسی طرح اس کی قیمت سو سو درہم بڑھاتے گئے اور آخرکار انہوں نے اس گھوڑے کی قیمت میں آٹھ سو درہم ادا کئے جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ سے یہ بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی کروں گا (چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ اس گھوڑے کا مالک وہ قیمت طلب نہیں کر رہا جو حقیقت میں ہونی چاہیے تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی۔