سفارش کرنا ایک مستحسن عمل ہے
راوی:
وعنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا أتاه السائل أو صاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجروا ويقضي الله على لسان رسوله ما شاء . متفق عليه . ( متفق عليه )
" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی سائل یا حاجت مند آتا صحابہ سے فرماتے کہ مجھ سے اس شخص کی سفارش کرو تاکہ تمہیں سفارش کا ثواب مل جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان سے جو حکم چاہتا ہے جاری فرماتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
کسی کی سفارش کرنا گویا اس کے ساتھ ہمدردی کرنا اور اس کی مدد کرنا ہے اس لئے حضور نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ تم لوگوں کی سفارش کرتے رہا کرو خواہ تمہاری سفارش قبول کی جائے یا نہ کی جائے کیونکہ کسی کا کام ہونا یا نہ ہونا تقدیر الٰہی اور حکم الٰہی کے مطابق ہے لہذا تم اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شاید میری سفارش قبول نہ ہو ، سفارش کرنے سے اجتناب نہ کرو اور اس کا ثواب ہاتھ سے نہ جانے دو۔ واضح رہے کہ سفارش کا حکم ان امور و معاملات سے متعلق ہے کہ جو کسی ناجائز حرام مقصد پر مبنی نہ ہو نیز اگر کوئی شخص کسی ایسے معاملے میں ماخوذ ہو جو حد یعنی شریعت کی طرف سے متعین شدہ سزا کو لازم کرتا ہے تو اس صورت میں اس وقت سفارش کرنا جائز نہیں ہوگا جب کہ وہ معاملہ امام وقت تک پہنچ چکا ہو، اگر وہ معاملہ امام تک نہ پہنچا ہو تو پھر سفارش کی جا سکتی ہے ہاں تعزیری معاملات میں بہر صورت سفارش کرنا جائز ہے نیز یہ ساری تفصیل اس صورت سے متعلق ہے جبکہ وہ شخص موذی و شریر نہ ہو، جس کی سفارش کرنا مقصود ہے موذی اور شریر کی سفارش کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔