مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان ۔ حدیث 884

تمام مسلمانوں کو ایک تن ہونا چاہیے

راوی:

وعن النعمان بن بشير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى عضوا تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى . متفق عليه

" اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اے مخاطب تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کا کوئی عضو دکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری و بخار کے تعب و درد میں سارا جسم شریک رہتا ہے۔ (بخاری مسلم)

تشریح
اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی صفت اتحاد و یگانگت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جذبہ تعلق ایسا ہو سکتا ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو رنگ و نسل کے بھید بھاؤ زبان و کلچر کے اختلاف و تفاوت اور ذات قبائل علاقہ کی تفرقہ بازی سے نجات دلا کر ایک انسانی برداری اور اتحاد و یگانگت ایک لڑی میں پرو سکتا ہے تو وہ صرف ایمان و اسلام کا تعلق ہے چنانچہ اہل ایمان جہاں بھی ہوں جس رنگ و نسل سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے درمیان کوئی انسانی اونچ نیچ نہیں ہے کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور کسی برتری و کمتری کی نفرت و حقارت نہیں ہے وہ جس عقیدے کے حامل اور جس نظریہ حیات کو ماننے والے ہیں اس کی روشنی میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تمام انسان ایک باپ کی اولاد ہیں تمام مسلمان ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں اگر وہ کڑیاں الگ الگ ہو جائیں تو زنجیر ٹوٹ کر رہ جائے گی اسی طرح اگر مسلمان تفرقہ بازی کا شکار ہو جائیں اور رنگ و نسل زبان و کلچر اور ذات پات کے دائروں میں سمٹ جائیں تو ان کے ملی وجود اور ان کی اجتماعی طاقت کو انتشار و اضملال کا گھن لگ جائے گا اور جب ان کی اجتماعی حثییت مجروح ہو کر غیر موثر ہو گی تو ان کا شخصی و انفرادی وجود بھی نہ صرف بے معنی ہو جائے گا بلکہ ہر شخص مختلف آفات کا شکار ہوگا اور چونکہ ملی وجود اور اجتماعی طاقت کا سرچشمہ افراد کا آپس میں محبت و موانست اور اشخاص کا باہمی ربط و تعلق ہے اس لئے ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے اس طرح ربط وتعلق رکھتا ہے کہ جس طرح دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں کہ آپس میں سلام و دعا کرتے ہیں باہمی میل جول اور ملاقات کرتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں باہمی معاملات و تعلقات کو محبت و موانست اور رحم دلی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں ہدایا و تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں ایک دوسرے کی مدد و اعانت کرتے ہیں اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے حالات رعایت اور اس کے طور طریقوں کی پاس داری کرتا ہے چنانچہ جب شخصی اور انفرادی سطح پر یہ ربط و تعلق ایک دوسرے کو جوڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے تو سارے مسلمان ایک مضبوط اجتماعی حثییت اور عظیم طاقت بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو اس ارشاد گرامی میں ظاہر کیا گیا ہے کہ اور تمام مسلمانوں کو ایک بدن کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس طرح جب بدن کا کوئی ایک عضو دکھتا ہے تو سارا بدن دکھتا ہے اور محض ایک عضو میں تکلیف ہونے سے پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ایک تن بن جائیں اور پوری ملت اسلامیہ ایک جسم کی مانند ہو جائے کہ اگر کسی ایک بھی مسلمان کو کوئی گزند پہنچے یا وہ کسی آفت میں گرفتار ہو تو سارے مسلمان اس کے دکھ و رنج میں شریک ہوں اور سب مل کر اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کرنے کی تدبیر کریں اسی مفہوم کو شیخ سعدی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے!
بنی آدم اعضائے یکد یگرند کہ درآفرینش زیک گوہر اند
چوعضوے بدرد آور دروزگا دگرعضو ہا رانماند قرار

یہ حدیث شیئر کریں