ناتا توڑنے والا اور رحمت خداوندی
راوی:
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الرحم شجنة من الرحمن . فقال الله من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته . رواه البخاري . ( متفق عليه )
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا رحم کا لفظ رحمن کے لفظ سے نکلا ہے چنانچہ اللہ نے رحم یعنی رشتہ ناطے سے فرمایا کہ جو شخص تجھ کو جوڑے گا یعنی تیرے حق کو ملحوظ رکھے گا میں بھی اس کو اپنی رحمت کے ساتھ جوڑ دوں گا اور جو شخص تجھ کو توڑے گا یعنی تیرے حق کا لحاظ نہیں کرے گا میں بھی اس کو توڑ دوں گا یعنی ایسے شخص کو اپنی رحمت سے محروم کروں گا۔ (بخاری)
تشریح
لفظ رحم رحمن سے نکلا ہے " کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں یوں ہے کہ اللہ نے فرمایا میں نے رحم یعنی ناطے کو پیدا کیا اور اس کے نام کا لفظ یعنی رحم اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا اور یہ احتمال بھی ہے کہ حدیث میں ان دونون لفظ یعنی رحم اور رحمن کے معنی مراد ہوں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ رحم کی قرابت یعنی ذوالارحام جیسے ماں باپ اور بہن بھائی وغیرہ کہ جس کے حق کا لحاظ کرنا واجب ہے رحمن یعنی اللہ کی رحمت کی ایک شاخ ہے۔ اور بعض شارحین نے لغت کی کتابوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شجنہ اصل میں درخت کے ان ریشوں اور ٹہنیوں کو کہتے ہیں جو اپنی جڑ کے ساتھ پیوست ہوں لہذا اس حدیث میں اس لفظ کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہے کہ رحم رحمن سے نکلا ہے یا یوں کہا جائے کہ رحم کا لفظ رحمت سے مشتق ہے کہ جس طرح درخت کے ریشے اپنی جڑوں کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح گویا رحم ، رحمن کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اور بعض حضرات نے لفظ شجنہ کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ لفظ رحم میں جو حروف ہیں وہ حق تعالیٰ کے اسم رحمن میں بھی موجود ہیں چونکہ رحمن اور رحم کی اصل مادہ اشتقاق ایک ہی ہے یعنی رحمۃ اس لئے رحم اور رحمن ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ کسی درخت کی ٹہنیوں کو اس کی جڑ سے الگ نہیں کیا جا سکتا اس طور پر یہ حدیث کے معنی ہوں کہ رحم یعنی ناتا دراصل اللہ کی رحمت کے آثار میں سے ایک اثر ہے اور اس کے ساتھ مربوط ہے لہذا صلہ رحم کے حقوق یعنی ناتا داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی ذمہ داری کو اپنے سے منقطع کرنے والا اپنے آپ کو رحمت رحمت الٰہی سے منقطع کرنے والا ہے اور ناطے کو جوڑنے والا یعنی ناطے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا اللہ کی رحمت کے ساتھ اپنے کو جوڑنے والا ہے جیسا کہ خود حدیث میں فرمایا گیا ہے۔