مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نیکی و صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث 850

صلہ رحمی کی اہمیت

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فأخذت بحقوي الرحمن فقال مه ؟ قالت هذا مقام العائذ بك من القطيعة . قال ألا ترضين أن أصل من وصلك وأقطع من قطعك ؟ قالت بلى يا رب قال فذاك . متفق عليه

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کر دیا جن وہ پیدا ہوں گے جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہو اور پروردگا کی کمر تھام لی ، پروردگار نے فرمایا کیا چاہتا ہے؟رحم نے عرض کیا کہ یہ کاٹے جانے کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے یعنی میں تیرے روبرو کھڑا ہوں اور تیرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوئے ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کر دے۔ پروردگار نے فرمایا کہ تو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو شخص رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذریعہ ) تجھ کو قائم رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان و انعام اور اجر و بخشش کے ذریعہ قائم برقرار رکھوں گا اور جو شخص رشتہ داری کے تعلق کو پامالی کا ذریعہ تجھ کو منقطع کر دے میں بھی اپنے احسان و انعام کا تعلق اس سے منقطع کر لوں ؟رحم نے عرض کیا کہ پروردگار بے شک میں اس پر راضی ہوں پروردگار نے فرمایا اچھا تو یہ وعدہ تیرے لئے ثابت و برقرار ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" جب اس سے فارغ ہوا " کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ مخلوقات کو پیدا کر چکا اگرچہ ظاہری طور پر ان دونوں جملوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن اس میں ایک لطیف نکتہ ہے کہ لغوی طور پر فراغت کا حقیقی مفہوم اپنے تحقق کے لئے پہلے اشتغال کا متقاضی ہوتا ہے یعنی فراغت کا مفہوم اس صورت پر صادق آتا ہے کہ جب کسی کام میں مشغولیت رہی ہو اور اس کام کے علاوہ دیگر امور سے باز رکھتی ہے اس لئے کہا جائے گا کہ جب اس سے فارغ ہوا میں فراغت اپنے اس حقیقی مفہوم میں استعمال نہیں ہوا ہے کیونکہ حق تعالیٰ اس سے پاک منزہ ہے کہ اس کو ایک کام دوسرے کام سے باز رکھے جیسا کہ ایک دعائے ماثورہ میں یوں آیا ہے، سبحان من لا تشغلہ شان عن شان،،۔
" حقو" دراصل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ازار باندھا جائے اور چونکہ ازار کو باندھنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دونوں کناروں کو ملا کر باندھنا اس اعتبار سے یہاں اس لفظ کا تثنیہ استعمال کرتے ہوئے بحقوی الرحمن فرمایا گیا یعنی وہ جگہ جہاں ازار کے دونوں کنارے باندھے جاتے ہیں ویسے لفظ، حقو، کا اطلاق خود ازار باندھنے کی جگہ اور کمر جیسی چیزوں سے پاک ومنزہ ہے اس لئے یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ یہ جملہ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اہل عرب کے ایک مخصوص اور اپنے بیان کا مظہر ہے اور یہاں جس بات کو بیان کرنا مقصود تھا ان کو انہی کے طرز کلام کی مثالی صورت میں واضح کیا گیا ہے چنانچہ اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی پناہ میں آنا چاہتا یا اس کی مدد کا خواہاں ہوتا جو اس کو سخت اضطراب و پریشانی میں ڈالنے والی ہوتی اور وہ پناہ یا مدد چاہنے کی اپنی ضروریات کو زیادہ اہمیت رکھتا اور تاکید کے ساتھ ظاہر کرنا چاہتا تو جس کی پناہ یا مدد درکار ہوتی اس کے حقو ازار پر دونوں ہاتھ مارتا تاکہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے اور یہ پوچھنے پر مجبور ہو کہ تیرا مقصد کیا ہے اور مجھ سے کیا چاہتا ہے چنانچہ رشتہ ناطے کا اپنے کاٹے جانے سے اللہ کی پناہ مانگنے کے مفہوم ہے جو کسی انسان کو پکڑنے کا ہوتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اہل عرب کے ہاں جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یداہ مبسوطتان یعنی اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں تو اس سے مراد اس کی نہایت سخاوت و فیاضی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے خواہ وہ واقعتا ہاتھوں والا ہو یا خلقی طور پر سرے سے اس کے ہاتھ ہی نہ ہوں اور خواہ وہ ایسی ذات ہو جس کے لئے ہاتھوں کا وجود ہی محال ہو جیسے حق تعالیٰ کی ذات حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے طرز کلام اہل عرب میں محاورہ کے طور پر بہت مستعمل ہیں جن کے الفاظ اپنے حقیقی معنی کو ادا کرنے کے بجائے دوسرے مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور چونکہ قرآن کریم کا نزول اور احادیث نبوی کا صدور اہل عرب ہی کے طرز کلام پر اور اسلوب بیان کے مطابق ہوا ہے اس لئے قرآن و حدیث کے ایسے مقام کہ جہاں اس طرح کے جملے آتے ہیں اور جن پر متشابہات کا اطلاق ہوتا ہے اور ان کی تاویل وضاحت کے لئے یہ بات ایک بنیاد کی حثییت رکھتی ہے ویسے اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ رحم یعنی رشتہ و ناطہ کوئی ذات و جسم تو ہے نہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر حق تعالیٰ سے پناہ کا طلبگار ہو بلکہ حقیقت میں وہ ایک معنی ہے لہذا اس کے لئے کھڑے ہونے اور پناہ چاہنے کے الفاظ استعمال کرنا بطور تشبیہ و تمثیل ہی ہو سکتا ہے جس سے اس بات کو واضح کرنا مراد ہے کہ رحم گویا ایک ہستی یا ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو کھڑا ہو اور حق تعالیٰ کی عزت و عظمت اور اس کی کبریائی کا دامن پکڑ کر پناہ کا طلب گار ہو۔
اسی طرح کی بات نووی نے بھی بیان کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ رحم جس کو جوڑا جاتا ہے یا کاٹا جاتا ہے کوئی ذات یا جسم نہیں ہے بلکہ معانی میں سے ایک معنی ہے جو نہ کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ اس سے کلام و گفتگو ہو سکتی ہے لہذا اس کے بارے میں مذکورہ ارشاد کی مراد دراصل رحم یعنی ناطے کی اہمیت کو ظاہر کرنا، ناطے کو جوڑنے والے کی فضیلت کو بیان کرنا اور ناطے کی مذمت کرنا ہے کیونکہ ناطے کو جوڑنا فی الجملہ واجب ہے اور اس کو توڑنا گناہ کبیرہ ہے اگرچہ صلہ رحم کے درجات متعین کر دیئے گئے ہیں جن میں سے بعض کو زیادہ اہمیت اور برتری حاصل ہے اور سب سے ادنی درجہ ترک مہاجرت یعنی میل ملاقات کو اختیار کرنا ہے کیونکہ صلہ رحم کا ایک ذریعہ کلام و ملاقات بھی ہے اگرچہ وہ محض سلام کی حد تک ہو۔ واضح رہے کہ صلہ رحم کے ان درجات کے درمیان تفاوت و اختلاف کی بنیاد مواقع و حالات اور ضرورت قدرت کے مختلف ہونے پر ہے چنانچہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں رشتہ داری کے تعلق کی رعایت اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کی زیادہ اہمیت و ضرورت ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہے اور بعض میں مستحب لہذا اگر کسی شخص نے ناتا جوڑنے کے حق کو جزوی طور پر ادا کیا اور اس کو پورے طور پر ادا نہیں کر سکتا تو اس کو ناتا توڑنے والا نہیں کہیں گے لیکن اگر کسی شخص نے رشتہ داری کے حقوق میں سے کسی ایسے حق کو پورا کرنے میں کوتاہی کی جس کو پورا کرنے پر وہ قادر تھا نیز اس حق کو پورا کرنا اس لئے مناسب بھی تھا تو اس شخص کو ناتا جوڑنے والا کہا جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں