رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک فراخی رزق اور درازی عمر کا ذریعہ ہے
راوی:
وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره فليصل رحمه . متفق عليه . ( متفق عليه )
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت و فراخی اور اس کی موت میں تاخیر کی جائے یعنی اس کی عمر دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
" اثر" اصل میں پیروں کے اس نشان کو کہتے ہیں جو چلتے وقت زمین پر پڑتا ہے اور وہ نشان گویا زندگی کی علامت ہوتا ہے جو شخص مر گیا اس کا نشان قدم زمین پر نہیں پڑا اس اعتبار سے عرب میں مدت عمر کو اثر کہا جانے لگا۔ حدیث کے اس جملہ اس کے رزق میں وسعت فراخی اور اس کی موت تاخیر کی جانے کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ اسلامی عقیدے میں رزق کا تعلق تقدیر سے ہے کہ جس شخص کے مقدر میں جس قدر رزق لکھ دیا گیا ہے اس کو اسی قدر ملے گا اس میں نہ کمی ہو سکتی ہے اور نہ زیادتی ہو سکتی ہے اور اسی طرح موت کا وقت بھی متعین ہے جس کی موت کا جو وقت کاتب تقدیر نے لکھ دیا ہے اس وقت سے نہ ایک لمحہ پہلے موت آ سکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے، آیت (فاذا جاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون)۔ پھر جب وہ میعاد ختم ہوگی یعنی عمر پوری ہوگی اس وقت نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ آگے بڑھیں گے۔
لہذا اس واضح عقیدے کی روشنی میں حدیث کے مذکورہ بالا جملے کے معنی کیا ہوں گے اس کا جواب یہ ہے کہ رزق میں وسعت فراخی اور درازی عمر سے مراد رزق میں برکت کا محسوس ہونا، شب و روز کا خوشی و مسرت اور اطمینان و سکون کے ساتھ گزرنا عمر کے بیشتر لمحات کو طاعات و عبادات کی زیادہ سے زیادہ توفیق حاصل ہونا اور قلب کو نورانیت اور باطن کو صفائی و پاکیزگی کا نصیب ہونا ہے یا درازی عمر سے مراد دنیا جہان میں نام کو نیک بقا حاصل رہنا ہے یا یہ کہ درازی عمر سے اولاد صالح مراد ہے جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے حق میں دعا و مغفرت اور ایصال ثواب کرتی ہے اور اس کے نیک نام کو باقی رکھتی ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ بقائے اولاد مردہ کے لئے پیدائش ثانی ہے یعنی صاحب اولاد شخص مرنے کے بعد بھی اس اولاد کی صورت میں ایک طرح سے اپنا وجود باقی رکھتا ہے۔
اور اگر زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رزق و عمر کے بارے میں مذکورہ بالا عقیدہ اور حدیث کے مفہوم کے درمیان کوئی ایسا تضاد نہیں ہے جس کو دور کرنے کے لئے دقیق تاویلات اختیار کی جائیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے کو فراخی و رزق اور درازی عمر کا سبب قرار دیا ہے جیسا کہ اس نے ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی سبب ضرور پیدا کیا ہے چنانچہ وہ جس کے رزق میں وسعت ، فراخی اور عمر درازی کرنا چاہتا ہے اس کو رشتہ داروں کے تئیں ادائے حقوق کی توفیق بخش دیتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ جس کو تقدیر الٰہی میں ترمیم و تغیر کا نام دیا جائے زیادہ سے زیادہ اس بات کو خلق کی نسبت سے محو سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جیسے لوح محفوظ میں لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کی عمر ساٹھ سال کی ہے لیکن اگر یہ شخص اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کی عمر چالیس سال کا اضافہ ہو جائے ۔ اس مسئلہ میں بحث کی خاطر علمی اور تحقیقی طور پر بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ صرف شارع نے جو بیان کر دیا ہے اور جس طرح فرمایا ہے بس اسی پر ایمان اور اعتقاد رکھا جائے نہ کہ بحث و مباحثہ کے ذریعہ شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں چنانچہ سعادت کی نشانی میں ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنا ارشاد فرما دیا ہے اسی کو اختیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور دور دراز کی بحثوں اور تحیقی موشگافیوں میں الجھ کر اپنے ذہن و فکر کو بوجھل نہ بنایا جائے۔