والدین کو تکلیف پہنچانا حرام ہے
راوی:
وعن المغيرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات ووأد البنات ومنع وهات . وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال . متفق عليه
" اور حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر اس امر کو حرام قرار دیا ہے کہ ماں کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھا جائے لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ فقر محتاجی اور عار کے خوف سے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے اور بخیلی و گدائی اختیار کی جائے نیز قیل وقال سوال کی زیادتی اور مال ضائع کرنے کو تمہارے لئے مکروہ قرار دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
خاص طور پر ماں کا ذکر کرنا اس سبب سے ہے کہ اولاد پر ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا ہے یا اس تخصیص کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ ماں طبعی طور پر باپ سے زیادہ حساس اور کمزور دل ہوتی ہے باپ تو اولاد کی بڑی سے بڑی اذیت رسانی کو برداشت کر لیتا ہے لیکن ماں اپنی اولاد کی طرف سے ذرا سی بات میں رنجیدہ ہو جاتی ہے اگر اولاد اس کے حقوق کی ادائیگی اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے میں معمولی بھی غفلت و کوتاہی کرتی ہے تو اس کا دل فورا متاثر ہو جاتا ہے اور سخت تکلیف محسوس کرتی ہے اور یہ بات ہے کہ اولاد کی تقصیر و کوتاہی سے جس قدر ماں درگزر کرتی ہے اتنا درگزر باپ نہیں کرتا اور اس کا سبب بھی ماں کا کمزور دل ہونا ہے۔" منع یا منع کے معنی روکنے کے ہیں اور اس سے مراد بخیل اور کنجوسی ہے۔
" ھات" دراصل لفظ اٰت کے معنی میں ہے جو ایتاء کا صیغہ امر ہے اور جس کے معنی ہیں لاؤ دو یہاں لفظ کو مانگنے کے اور سوال کرنے یعنی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ منع و ھات سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال پر دوسرے لوگوں کا جو حق واجب ہو تو اس کو ادانہ کرے اور دوسروں کے مال میں سے وہ چیز لے جو اس کے لئے حلال نہیں بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نہ صرف مال میں منع وہات کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ ہر طرح کے حقوق واجبہ کو ادا نہ کرنا حرام ہے اور ان کا تعلق خواہ مال و ذر سے ہو یا افعال و احوال سے اور خواہ قوال و گفتار سے ہو اخلاق و کردار سے اسی طرح کسی ایسی چیز کا مطالبہ کرنا اور مانگنا جو دوسروں پر کسی بھی طرح کے حق کے طور پر واجب نہ ہو اور دوسروں کو کسی ایسی چیز کی ادائیگی و انجام دہی کی محنت و کلفت میں مبتلا کرنا جو ان پر واجب نہیں ہے حرام ہے۔
" قیل وقال" یہ ایک محاورہ ہے جو ہماری زبان میں بھی اسی طرح مستعمل ہے اس کا اطلاق عام طور پر بے فائدہ بحث و مباحثہ ، رد و کد اور حجت و تکرار پر ہوتا ہے یہاں حدیث میں بھی قیل و قال کو مکروہ قرار دینے کا مطلب بے فائدہ باتیں کرنے اور بک بک لگانے سے منع کرنا ہے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب بے فکر لوگ کہیں آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو ادھر ادھر کی لایعنی باتوں میں لگ جاتے ہیں نہ کسی گفتگو کا کوئی بامقصد موضوع ہوتا ہے اور نہ کسی بات کا کوئی دینی و دنیاوی فائدہ ان کی بات چیت کا زیادہ تر موضوع غلط و سلط واقعات کو نقل کرنا اور جھوٹے سچے اقول کو بیان کرنا ہوتا ہے چنانچہ جب کوئی شخص کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کہا فلاں آدمی نے اس طرح کہا تو فلاں شخص نے یوں جواب دیا غرضیکہ اسی طرح کے بے سروپا اور لغو باتیں کر کے اور گب شب میں مشغول رہ کر وقت جیسی قابل قدر شئے کو ضائع کرتے رہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ قیل و قال کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ اس بحث و مباحثہ اور باہمی بات چیت کا مقصد کسی مسئلہ معاملہ کی تحقیق اور حصول معلومات نہ ہوں ہاں اگر کسی معاملہ کی تحقیق حصول معاملہ میں اور دوسرے نیک مقصد کے لئے باتوں میں مشغول رہا جائے اور لوگوں کے اقوال بیان کئے جائیں تو اس پر مذکورہ ممانعت کا اطلاق نہیں ہوگا بعض حضرات نے قیل قال کی مراد بہت زیادہ باتیں کرنا اور لکھنا ہے اور واضح کیا ہے کہ بہت زیادہ باتیں کرنا دل پر غفلت و مردنی طاری کرتا ہے بے حسی اور لا پرواہی میں مبتلا کرتا ہے اور وقت کو ضائع کرتا ہے۔
" کثرۃ السوال" یعنی سوال کی زیادتی کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ دوسرے لوگوں کے احوال و معاملات کی بہت زیادہ پوچھا یا پاچھی اور تجسس معلومات کرنا دوسرے کے یہ اپنے علم کی برتری کو ظاہر کرنے یا کسی کو امتحان و آزمائش میں مبتلاکرنے یا لاحاصل بحث و مناظرہ کی خاطر بہت زیادہ علمی سوالات کرنا اور کسی بات کو بہت زیادہ گھما پھرا کر پوچھنا اور تیسرے یہ کہ اس ممانعت کے مخاطب خاص طور پر صحابہ تھے جنہیں اس بات کی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دینی احکام و مسائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوالات نہ کریں اور نہ ادھر ادھر کے معاملات میں آپ سے پوچھ پاچھ کیا کریں کیونکہ سوالات کی زیادہ کثرت اور غیر ضروری پوچھا پا چھی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناگوار ہوتی ہے بلکہ زیادہ پوچھنا احکام و مسائل میں شدت و سختی اور مزید پابندیوں کا سبب بھی بن سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا آیت (لاتسئلو عن اشیاء)۔
" اضاعۃ المال" یعنی مال کو ضائع کرنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال اور اور اپنے روپے کو اسراف یعنی فضول خرچیوں میں بہایا جائے یا اس کو ایسی جگہ خرچ کیا جائے جس کا حق تعالیٰ کی طاعت وخوشنودی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے کوئی شخص اپنا سارا مال اور روپیہ یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرے شخص کو دیدے مگر اس کے وہ عزیز و اقا رب اور متعلقین محروم رہیں جو نہ صرف اپنے تعلق کی وجہ سے بلکہ اپنے احتیاج و ضرورت کی بنا پر بھی اس کے مال اور روپیہ اور پیسہ پر اپنا حق رکھتے ہوں یا کوئی شخص اپنے مال و اسباب اور دولت کو پانی میں ڈال دے یا نذر آتش کر دے اور یا کسی ایسے فاسق کو دیدے جو اس کو گناہ و معصیت کے کاموں میں خرچ کرے۔ اضاعۃ المال کے مذکورہ بالا مسئلہ کو زیادہ تفصیل کے ساتھ یوں سمجھنا چاہیے کہ اپنے مال و دولت اور روپیہ پیسہ کو جہاں کرچ کرنا ہے حرام یا مکروہ ہے وہاں اپنے مال اور روپیہ پیسہ کو صرف بلاشبہ اسراف اور ضائع کرنا کہلائے گا لیکن یہ دونوں صورتوں میں بالکل واضح ہیں اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں اشتباہ اس جگہ ہے جہاں کرچ کرنا بظاہر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اچھی طرح غور و فکر کیا جائے تو اس خرچ کے نتیجہ سے برائیاں اور ظاہری باطنی خرابیاں نکلتی ہیں مثلا بلا ضرورت دور دراز کے علاقوں میں مکانات بنوانا ، مکانات میں بے ضرورت تعمیر و ترمیم کر کے ان کو وسیع کرنا اور ان کی نار وا آرائش و زیبائش کرنا اور اس کی خاطر مال خرچ کرنا جہاں جس قدر خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں اس سے زائدخرچ کرنا ، محض نفس و طبعیت کے حظ اور مزہ لذت حاصل کرنے کے لئے حد اعتدال سے زیادہ اچھے اچھے کھانے کھانا بڑائی جتانے اور اپنے کو برتر ثابت کرنے کے لے اعلی پوشاک پہننا اور اپنی شان و شوکت کو ظاہر کرنے کے لئے اونچے درجہ کی طرف معاشرت اختیار کرنا اور ان سب صورتوں میں فقراء مساکین اور مفلس وقلاش لوگوں کی ضروریات سے صرف نظر کرنا اور ان کی خستہ حالی و محتاجگی کی قطعا کوئی رعایت نہ کرنا جیسا کہ خالص دنیا دار اور فضول خرچ کرنے والوں کا شیواہ ہے یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر اپنا مال اور روپیہ پیسہ خرچ کرنا اگرچہ شریعت کے ظاہری حکم کی روشنی میں حرام قرار نہ پائے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طرح کے اخراجات قلب و طبیعت پر تنگی و سختی اور بے مروتی طاری ہونے کا سبب بنتے ہیں اس صورت حال سے سماج و معاشرہ میں غیر فطری عدم توازن و ناہمواری کی فضا بھی پیدا ہو جاتی ہے جس سے مختلف قسم کی برائیوں ظہور میں آتی ہیں۔ اسی طرح برتن باسنوں ہتھیاروں اور استعمال میں آنے والی دوسری چیزوں کو سونے جواہرات اور دیگر قیمتی اشیاء سے مزین کرنا، خرید و فروخت کے معاملات میں اس طرح لاپرواہی برتنا کہ نہ تو مال کے ڈوبنے کا خوف ہو جیسے ادھار لین دین کی مدت کو ضرورت سے زائد بڑھانے اور نہ اپنے روپے پیسے کی حفاظت کا لحاظ ہو جیسے ایسی تجارت یا معاملہ میں اپنا روپیہ لگانا جس میں نقصان کا یقین ہو یا کسی چیز کو خواہ مخواہ بلاضرورت گراں قیمت پر خریدنا اس طرح کی چیزیں بھی اسراف یعنی فضول خرچی اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے حکم میں داخل ہیں۔