مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 815

کسی شرع اور حقیقی عذر کی بناء پر وعدہ خلافی کرنا مناسب نہیں

راوی:

عن زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من وعد رجلا فلم يأت أحدهما إلى وقت الصلاة وذهب الذي جاء ليصلي فلا إثم عليه . رواه رزين

" اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی آدمی سے کہیں ملنے کا وعدہ کرے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک نماز کے وقت تک وہاں نہ پہنچے اور وہ شخص نماز پڑھنے کے لئے چلا جائے جو وہاں آ گیا تھا تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔

تشریح
اس ارشاد گرامی کی صورت وضاحت یہ ہے کہ مثلا دو آدمیوں نے اپنے آپس میں ایک دوسرے سے یہ وعدہ کیا کہ ہم دونوں فلاں جگہ پہنچ کر ایک دوسرے سے ملیں گے اس وعدہ کے مطابق ان دونوں میں سے کوئی ایک مقررہ جگہ پر پہنچ کر دوسرے آدمی کی انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اب مزید انتظار نہ کرے اور نماز کے لئے چلا جائے تو وعدہ خلاف نہیں کہلائے گا اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کیونکہ نماز کے لئے جانا ضرورت دین میں سے ہے ہاں اگر وہ نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی وہاں سے اٹھ جائے تو بے شک اس کو وعدہ خلاف کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کی برائی اس کے ذمہ ہوگی اسی طرح اگر کوئی ضروری امر مانع پیش آئے جیسے کھانے پینے کا وقت ہو گیا یا پیشاب و پاخانہ کی حاجت لاحق ہو گئی تو اس صورت میں بھی مزید انتظار کئے بغیر پہلے جانا جائز ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں