ایفاء عہد کی عملی تعلیم
راوی:
وعن عبد الله بن أبي الحسماء قال بايعت النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن يبعث وبقيت له بقية فوعدته أن آتيه بها في مكانه فنسيت فذكرت بعد ثلاث فإذا هو في مكانه فقال لقد شققت علي أنا ههنا منذ ثلاث أنتظرك . رواه أبو داود
" اور حضرت عبداللہ بن ابوحسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے ایک مرتبہ میں نے آپ سے کسی چیز کو خریدا اور اس کے کچھ حصہ کی ادائیگی مجھ پر باقی رہ گئی اور میں نے وعدہ کیا کہ میں بقیہ قیمت لے کر اسی جگہ جہاں آپ تشریف فرماتے یا جہاں میں نے وہ چیزخریدی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا لیکن میں اس وعدہ کو بھول گیا اور پھر تیسرے دن یہ بات یاد آئی کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ کیا تھا جبھی میں وہ بقیہ قیمت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم نے مجھ کو بڑی زحمت میں مبتلا کر دیا میں تین دن سے اسی جگہ بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابوداؤد)
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنے طویل انتظار کی اس مشقت و زحمت کو برداشت کرنا اپنی چیز کی بقیہ قیمت وصول کرنے لئے نہیں تھا بلکہ اس احساس کے تحت تھا کہ جب عبداللہ نے بقیہ قیمت لے کر یہاں آنے کا وعدہ کیا تھا اور ان کے وعدے کے جواب میں گویا میری طرف سے بھی یہ وعدہ تھا کہ میں یہاں ہوں گا تو جب تک وہ یہاں نہ آ جائیں ایفاء عہد کی خاطر مجھے یہاں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے اس اعتبار سے آپ نے اپنے اس عمل کے ذریعہ امت کو یہ تعلیم دی کہ وعدہ کو بہر صورت پورا کرنا چاہیے خواہ اس کے لئے کتنی ہی زحمت کیوں نہ برداشت کرنی پڑی واضح رہے کہ دین اسلام سے پہلے بھی تمام ادیان میں وعدے کو پورا کرنے کا حکم تھا اور سارے رسول ایفاء عہد کی محافظت کرتے رہے ہیں چنانچہ اللہ نے حضرت ابراہیم کی مدح و تعریف میں یوں فرمایا: آیت (وابراہیم الذی وفی)۔