غیبت زنا سے بدتر ہے۔
راوی:
وعن أبي سعيد وجابر قالا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغيبة أشد من الزنا . قالوا يا رسول الله وكيف الغيبة أشد من الزنا ؟ قال إن الرجل ليزني فيتوب فيتوب الله عليه وفي رواية فيتوب فيغفر الله له وإن صاحب الغيبة لا يغفر له حتى يغفرها له صاحبه .
وفي رواية
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا غیبت کرنا زنا کرنے سے زیادہ سخت برائی ہے، صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ غیبت زنا سے زیادہ سخت برائی کس طرح سے ہے؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو توبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے یعنی زنا کاری چونکہ اللہ کی معصیت و نافرمانی ہے اس لئے وہ ان کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور اس کو بخش دیتا ہے جبکہ غیبت کرنا حق العباد سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ غیبت کرنے والے کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک وہ شخص اس کو معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زنا کرنے والا توبہ کرتا ہے اور غیبت کرنے والے کے لئے توبہ نہیں ہے۔ (ان تینوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔)
تشریح
اور غیبت کرنے والے کے لئے توبہ نہیں ہے، غالباً اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص زنا میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے دل پر اللہ کا خوف طاری ہو جاتا ہے اور اس تصور سے لرزنے لگتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کر لیا تو نجات کا راستہ نہیں ملے گا اس لے وہ اپنے اس فعل شنیع پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے جب کہ غیبت اگرچہ اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی چیز ہے کہ مگر غیبت کرنے والا اس کو ایک ہلکی چیز سمجھتا ہے کیونکہ جب کوئی برائی عام ہو جاتی ہے تو اس کی قباحت دل سے نکل جاتی ہے اور لوگ اس میں مبتلا ہو جانے کی برائی محسوس نہیں کرتے یا یہ بات بھی بعید از مکان نہیں ہو سکتی ہے کہ غیبت کرنے والا غیبت کو سرے سے کوئی برا فعل ہی نہ سمجھے بلکہ اس کو جائز و حلال جانے اور اس طرح وہ کفر کے بھنور میں پھنس جائے، اور یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ غیبت کرنے والا توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ بذات خود کارگر نہیں ہوتی بلکہ اس توبہ کا صحیح و مقبول ہونا اس شخص کی رضا مندی اور اس کی طرف سے معاف کر دیئے جانے پر موقوف ہوتا ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے چنانچہ اوپر کی حدیث سے یہی واضح ہوتا ہے۔