غیبت مفسد روزہ ہے
راوی:
وعن ابن عباس أن رجلين صليا صلاة الظهر أو العصر وكانا صائمين فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة قال أعيدا وضوءكما وصلاتكما وامضيا في صومكما واقضيا يوما آخر . قالا لم يا رسول الله ؟ قال اغتبتم فلانا
" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن دو آدمیوں نے جو روزہ دار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کریم کے پیچھے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں دوبارہ وضو کرو اپنی نماز کو لوٹاؤ اور اپنے اس روزے کو پورا کرو اور اس کے بدلے میں احتیاطا دوسرے دن کا روزہ رکھ لو۔ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا کیوں؟ یعنی وضو، نماز اور روزے کو لوٹانا کس سبب سے ہے؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ تم نے فلاں شخص کی غیبت کی ہے۔
تشریح
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت وضو اور روزے کو توڑ دیتی ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث دراصل غیبت کی شدید مذمت اور غیبت کرنے والے کے حق میں سخت ترین زجر و تنبیہ کے طور پر ارشاد ہوئی ہے ورنہ حقیقت میں غیبت سے روزہ اور وضو ٹوٹتا نہیں تاہم غیبت کی وجہ سے وضو اور روزہ کا کمال و ثواب ضرور کھویا جاتا ہے لیکن حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک غیبت، مفسدہ روزہ ہے، بہر حال حدیث سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ غیبت کی قباحت و برائی بہت زیادہ ہے اور احتیاط و تقوی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر غیبت صادر ہو جائے تو وضو کی تجدید کرنی چاہیے بلکہ علماء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ ہنسنے یا بہت زیادہ لا یعنی باتیں کرنے سے اس کے باطن پر طاری ہو گئی ہے نیز روزہ دار کو چاہیے کہ غیبت سے پوری طرح اجتناب کرے۔