لعنت کرنے کی برائی
راوی:
وعن عائشة قالت مر النبي صلى الله عليه وسلم بأبي بكر وهو يلعن بعض رقيقه فالتفت إليه فقال لعانين وصديقين ؟ كلا ورب الكعبة فأعتق أبو بكر يومئذ بعض رقيقه ثم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وقال لا أعود . روى البيهقي الأحاديث الخمسة في شعب الإيمان
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ حضرت ابوبکر اپنے کسی غلام پر لعنت کر رہے ہیں، آپ ان کی طرف متوجہ ہو گئے، اور فرمایا کہ بھلا تم نے لعنت کرنے اور صدیقین کو بھی دیکھا ہے؟ (یعنی کیا تم نے کبھی بھی کوئی ایسے شخص کو دیکھا کہ جس میں بیک وقت یہ دو صفتیں یعنی لعانیت اور صدیقیت پائی جاتی ہیں حاصل یہ ہے کہ جو شخص صدیقیت کے مقام پر فائز ہو وہ لعنت کرنے والا نہیں ہو سکتا جیسا کہ یہ حدیث گزر چکی ہے کہ لا ینبغی لصدیق ان یکون لعانا، یعنی صدیق کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ لعنت کرنے والا ہو) نہیں رب کعبہ کی قسم یہ دونوں باتیں کسی ایک شخص میں ہرگز جمع نہیں ہو سکتیں ، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد سن کر اپنی اس تقصیر کے کفارہ کے طور پر اس دن اپنے بعض غلاموں کو آزاد کیا پھر معذرت خواہی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آئندہ کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ (یعنی کسی کو لعنت نہیں بھیجوں گا) حضرت عمران بن حطان کی روایت سے لے کے اس حدیث تک ان پانچوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔