مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 793

خدا کی رحمت کو کسی کے لئے مخصوص ومحدود نہ کرو۔

راوی:

وعن جندب قال جاء أعرابي فأناخ راحلته ثم عقلها ثم دخل المسجد فصلى خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما سلم أتى راحلته فأطلقها ثم ركب ثم نادى اللهم ارحمني ومحمدا ولا تشرك في رحمتنا أحدا . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أتقولون هو أضل أم بعيره ؟ ألم تسمعوا إلى ما قال ؟ قالوا بلى ؟ . رواه أبو داود .
وذكر حديث أبي هريرة كفى بالمرء كذبا في باب الاعتصام في الفصل الأول

" اور حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک دیہاتی شخص اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ اور آیا اس نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے پاؤں کو باندھ کر مسجد میں داخل ہوا پھر اس نے رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھی اور سلام پھیرنے کے بعد اس پر سوار ہوا اور پھر اس نے بلند آواز سے اس طرح کہا کہ اللہ مجھ پر اور محمد پر اپنی رحمت نازل فرما اور ہماری رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر رسول اللہ نے اس کو اس طرح دعا مانگتے سنا تو صحابہ سے فرمایا کہ تم بتا سکتے ہو کہ یہ دیہاتی زیادہ جاہل ہے یا اس کا اونٹ کیا تم نے سنا نہیں اس نے کیا کہا ہے (صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ہم نے سنا ہے۔ (ابوداؤد) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کفی بالمرء کذبا الخ۔ ، باب الاعتصام میں نقل کی جا چکی ہے۔

تشریح
اس دیہاتی نے چونکہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو مخصوص و محدود کیا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ گویا اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا لہذا معلوم ہوا کہ دعا میں اپنے مطلوب کو محدود و مخصوص نہ کرنا چاہیے یعنی یہ دعانہ مانگنی چاہیے کہ فلاں بات بس ہمارے لئے ہی ہے دوسرے کے لے نہ ہو بلکہ اس میں تمام مومنین و مومنات کو داخل کرنا چاہیے۔

یہ حدیث شیئر کریں