مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 785

جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے۔

راوی:

وعن أبي الدرداء قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن العبد إذا لعن شيئا صعدت اللعنة إلى السماء فتغلق أبواب السماء دونها ثم تهبط إلى الأرض فتغلق أبوابها دونها ثم تأخذ يمينا وشمالا فإذا لم تجد مساغا رجعت إلى الذي لعن فإن كانت لذلك أهلا وإلا رجعت إلى قائلها . رواه أبو داود

" اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی بندہ کسی چیز یعنی کسی انسان یا غیر انسان پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس لعنت پر بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ لعنت دائیں بائیں طرف جانا چاہتا ہے ، چنانچہ جب وہ کسی طرف بھی راستہ نہیں پاتی تو اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہے یہاں تک کہ اگر وہ چیز اس لعنت کی اہل و سزا وار ہوتی ہے تو اس پر واقع ہو جاتی ہے ورنہ اپنے کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ (ابوداؤد)

تشریح
اس حدیث کے ذریعہ لعنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ جس چیز کو لوگ بہت معمولی چیز سمجھتے ہیں اور ہر کس وناکس پر لعنت کرتے رہتے ہیں انجام کار خود ہی اس لعنت کا شکار ہو جاتے ہیں چنانچہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت ابتداء ہی سے اس پر متوجہ نہیں ہوتی، اور یہ چاہتی ہے کہ ادھر ادھر سے ہو کر باہر نکل جائے مگر جب کسی طرف کو راستہ نہیں پاتی تو آخر کار اس پر متوجہ ہوتی بشرطیکہ وہ اس لعنت کا سزاو ار ہو اور اگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس لعنت کا سزا وار نہیں ہوتا تو پھر انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوٹ کر اس شخص پر واقع ہو جاتی ہے جس نے وہ لعنت کی ہے لہذا معلوم ہوا کہ جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص لعنت کا واقعی مستوجب ہے اس پر لعنت نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ کسی شخص کا قابل لعنت ہونا شارع کی طرف سے بتائے بغیر متعین نہیں ہو سکتا۔

یہ حدیث شیئر کریں