مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 778

کسی کی آخرت کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی حکم نہ لگاؤ

راوی:

وعن أنس قال توفي رجل من الصحابة . فقال رجل أبشر بالجنة . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو لا تدري فلعله تكلم فيما لا يعنيه أو بخل بما لا ينقصه . رواه الترمذي

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ میں سے ایک شخص کا انتقال ہوا تو ایک دوسرے شخص نے (مرحوم کی میت کو مخاطب کر کے کہا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے تمہیں) جنت کی بشارت ہو۔ رسول اللہ نے یہ بات سن کر اس شخص سے فرمایا کہ تم یہ بات کس طرح کہہ رہے ہو جبکہ حقیقت حال کا تمہیں علم نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے کسی ایسے معاملہ میں اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں جو اس کے لئے ضرر رساں نہ ہو یا کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو جس میں کمی نہ آئے۔ (ترمذی)

تشریح
کسی ایسے معاملے میں اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بے فائدہ باتوں میں اپنا وقت ضائع کیا ہو اور ایسے امور میں خواہ مخواہ کے لئے اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں جو اس کے لئے کسی طرح کا ضرر و نقصان پہنچانے کا سبب نہ ہوں۔ کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز کو دینے میں بخل سے کام لیا ہو جو دیئے جانے کے باوجود کم نہیں ہوتی جیسے علم کی تعلیم یا مال زکوۃ کی ادائیگی کہ علم تقسیم کرنے یا زکوۃ ادا کرنے سے علم اور مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ ان میں زیادتی ہی ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کا ماحصل یہ تھا کہ اس شخص کے جنت میں جانے کے بارے میں اس طرح کا جزم و یقین کیوں ظاہر کیا ہے؟ جب کہ تمہیں اس کی زندگی کے سارے ظاہری باطنی گوشوں سے واقفیت اور اس کے احوال کی حقیقت کا علم نہیں ہے بے شک اس شخص کی ظاہری زندگی بڑی پاکیزہ تھی اور اس کو صحابیت کی سعادت بھی حاصل ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی زبان سے کوئی لایعنی بات نکالی ہو یا بخل کیا ہو اور اس مواخذہ حساب میں گرفتار ہو کر جنت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں