حسن اسلام کیا ہے۔
راوی:
وعن علي بن الحسين رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه . رواه مالك وأحمد ورواه ابن ماجه عن أبي هريرة والترمذي والبيهقي في شعب الإيمان عنهما
" اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یعنی حضرت امام زین العابدین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے ۔ مالک، احمد) نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور ترمذی اور شعب الایمان میں بہیقی نے دونوں یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور حضرت علی ابن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے اسلام کے حسن و خوبی اور ایمان کے کامل ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کرے جس کا اہتمام نہیں کیا جاتا جس کے ساتھ کوئی غرض متعلق نہیں ہوتی اور جس کی یہ شان نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اس کا اہتمام کرے اور اس کے حصول میں مشغولیت اختیار کرے حاصل یہ کہ وہ چیز کوئی امر ضروری نہ ہو چنانچہ جس چیز کا امر لایعنی کہا جاتا ہے اس کی تعریف و وضاحت یہی ہے اس کے برخلاف جو چیز امر ضروری کہلاتی ہے اور کوئی شخص جا اہتمام کرتا ہے وہ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے ساتھ دنیا میں ضروریات زندگی اور آخرت میں سلامتی ونجات وابستہ ہوتی ہے مثلا دنیا کی ضروریات زندگی میں سے ایک تو غذا ہے جو بھوک کو مٹاتی ہے دوسرے پانی ہے جو پیاس کو رفع کرتا ہے تیسرے کپڑا ہے جو ستر کو چھپتا ہے چوتھے بیوی ہے جو عفت وپاکدامنی پر قائم رکھتی ہے اور اسی طرح کی وہ چیزیں جو زندگی کی دوسری ضروریات کو پورا کریں نہ کہ وہ چیزیں جن سے محض نفس کی لذت حرص و ہوس کی بہرہ مندی اور دنیا کی محبت کا تعلق ہوتا ہے نیز ایسے افعال واقوال اور تمام حرکات و سکنات بھی نہیں جو فضول و بے فائدہ ہوں، اسی طرح وہ چیز کہ جس سے آخرت کی سلامتی و نجات متعلق ہوتی ہے ایمان و اسلام اور احسان کی جس کی وضاحت ابتداء کتاب میں حدیث جبرائیل میں ذکر ہو چکی ہے ۔ حاصل یہ کہ جو چیزیں دنیا و آخرت میں ضروری ہیں اور جن پر دینی و دنیوی زندگی کا انحصار و مدار ہوتا ہے اور جو مولیٰ کی رضا و خوشنودی کا سبب و ذریعہ بنتی ہے وہ تو لایعنی نہیں ہیں ان کے علاوہ باقی تمام چیزیں لایعنی ہیں خواہ ان چیزوں کا تعلق عمل سے ہو یا قول سے۔
حضرت امام غزالی نے کہا کہ لایعنی (بے فائدہ بات ) کا آخری درجہ یہ ہے کہ تم کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نکالو کہ جس کو اپنی زبان سے نہ نکالتے تو گناہگار ہوتے اور اس کی وجہ سے تمہیں فوری طور پر کوئی نقصان پہنچتا اور نہ مال کے اعتبار سے اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کرو، تم کچھ لوگ ساتھ بیٹھے ہوئے ہو، اب تم نے ان کے سامنے اپنے کسی سفر کے احوال بیان کئے اس بیان احوال کے دوران تم نے ہر اس چیز کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو تم نے اپنے سفر کے دوران دیکھی مثلا پہاڑ عمارت وغیرہ یا جو کچھ واقعات و حادثات پیش آئے تھے ان کے بارے میں بتایا ، پھر تم نے ان اچھے کھانوں، عمدہ لباس و پوشاک اور دوسری چیزوں کا بھی ذکر کیا جو تمہیں ملی تھیں یا جن کو تم نے دیکھا تھا، ظاہر ہے کہ تم نے یہ جو ساری تفصیل بیان کی اور جن امور کا ذکر کیا وہ یقینا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر تم ان کو بیان نہ کرتے تو گناہگار ہوتے اور نہ تمہیں کوئی نقصان و ضرر برداشت کرنا پڑتا جب کہ اس لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کی صورت میں بہت ممکن ہے کہ کسی موقع پر تمہاری زبان لغزش کھائی ہو اور اس سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہو جس سے تم گناہگار بن گئے ہو۔