مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 771

کلمہ خیر اور کلمہ شر کی اہمیت

راوی:

وعن بلال بن الحارث قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل ليتكلم بالكلمة من الخير ما يعلم مبلغها يكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه . وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من الشر ما يعلم مبلغها يكتب الله بها عليه سخطه إلى يوم يلقاه . رواه في شرح السنة وروى مالك والترمذي وابن ماجه نحوه

" اور حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کوئی کلمہ خیر (بھلائی کی کوئی بات) اپنی زبان سے نکالتا ہے درآنحالیکہ وہ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ اسی کلمہ خیر کے سبب سے اس کے حق میں اس دن تک کے لئے اپنی خوشنودی کو ثابت کر دیتا ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اسی طرح کوئی انسان کلمہ شر (یعنی کوئی برائی کی بات) اپنی زبان سے نکالتا ہے درآنحالیکہ وہ اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اس کلمہ شر کے سبب سے اس کے حق میں اس دن تک کے لئے اپنی خفگی ثابت کر دیتا ہے جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے ۔ (شرح السنہ) اور امام مالک ، ترمذی، اور ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

تشریح
اپنی خوشنودی کو ثابت کر دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایسی باتوں کی توفیق دیتا ہے جو رضاء الٰہی کا موجب ہیں اس کو برزخ میں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس طرح سو رہو جیسے نوشہ سوتا ہے پھر وہ قیامت کے دن نیک بختی و سعادت کے ساتھ اٹھے گا کہ اس پر حق تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہوگا جنت میں داخل کیا جائے گا اور وہاں کی نعمتیں اس کا نصیب بنیں گی۔ اسی طرح جس شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ اپنی خفگی قائم کر دے گا اس کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوگا لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس دن تک کے لئے جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے تو اس تو قیت کا یہ مطب ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کی رضا یا اس کی خفگی بس اسی دن تک محدود رہے گی۔ اس کے بعد منقطع ہو جائے گی اس کی تائید قرآن کریم اس آیت سے بھی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے حق میں نازل فرمائی کہ ، آیت (وَّاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِيْ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ) 68۔ص : 78) ظاہر آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابلیس لعین ، اللہ کی لعنت کا مورد صرف قیامت کے دن تک ہی ہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ تک اللہ کے لعنت میں گرفتار رہے گا اسی طرح حدیث میں مذکورہ لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یا خفگی کا تعلق موت کے دن کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ، کلمہ خیر، سے مراد ظالم سلطان و حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ اس پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ ، کلمہ شر، سے مراد کسی حاکم و سلطان کے سامنے کلمہ باطل یعنی بری بات کہنا ہے جو دین کو نقصان پہنچائے لیکن حدیث کا ظاہر مفہوم عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں