مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 768

اپنے عیب کو ظاہر نہ کرو

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل أمتي معافي إلا المجاهرون وإن من المجانة أن يعمل الرجل عملا بالليل ثم يصبح وقد ستره الله . فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه . متفق عليه . وذكر في حديث أبي هريرة من كان يؤمن بالله في باب الضيافة

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پوری عافیت میں ہے علاوہ ان لوگوں کے جو اپنے عیوب اور گناہ کو ظاہر کرتے ہیں یعنی میری امت کے وہ سارے گنہگار جو ایمان کی حالت میں مریں اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے البتہ وہ لوگ یقینا سخت ترین عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے جو نہ صرف گناہ کرتے ہیں بلکہ اپنے گناہ کو دنیا والوں پر ظاہر بھی کرتے پھرتے ہیں بلا شبہ یہ بات بڑی بے پروائی کی ہے کہ کوئی شخص رات میں برا کام کرے اور پھر صبح ہونے پر جب کہ اللہ نے اس کے اس برے کام کو چھپا لیا تھا تو وہ لوگوں سے یہ کہتا پھرے کہ اے فلاں شخص میں نے آج رات میں ایسا ایسا (یعنی فلاں برا کام) کیا حالانکہ اس کے پروردگار نے رات میں اس کے گناہ کی پردہ پوشی کی تھی اور اس نے صبح ہوتے ہیں اللہ کے پردہ کو چاک کر دیا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں من کان یومن باللہ باب الضیافۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔

تشریح
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں لفظ معافا کے معنی سلامت و محفوظ رہنا لکھے ہیں گویا ان کے نزدیک کل امتی معافا الا المہاجرون، کا ترجمہ یوں ہوں گا کہ میری امت کے تمام لوگ غیبت سے محفوظ و مامون ہیں یعنی شریعت الٰہی میں کسی مسلمان کی غیبت کرنے کو روانہیں رکھا گیا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو گناہ و معصیت کے کھلم کھلا ارتکاب کرتے ہیں ایک دوسرے شارح حدیث طیبی نے بھی یہی معنی لکھے ہیں کہ لیکن ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ حدیث کا سیاق و سباق اور اس کا حقیقی مفہوم اس معنی پر دلالت نہیں کرتا چنانچہ ان کے نزدیک زیادہ مبنی بر حقیقت کے معنی وہی ہیں جو ترجمہ میں نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ شریعت نے جس غیبت کو حرام قرار دیا ہے وہ اس شخص کی غیبت ہے جو پوشیدہ طور پر کوئی گناہ کرتا ہے اور اپنے عیب کو چھپاتا ہے لیکن جو لوگ کھلم کھلا اور ڈھٹائی کے ساتھ گناہ کرتے ہیں اور اپنے عیب کو خود ظاہر کرتے پھرتے ہیں کہ نہ تو اللہ سے شرماتے ہیں اور نہ بندوں سے تو ان کی غیبت کرنا درست ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ فاسق معلن یعنی کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کی غیبت کرنا جائز ہے نیز ظلم کرنے والے حاکم و سلطان اور مبتدع داعی کی اور داد خواہی و اظہار ظلم کے لئے غیبت کرنا بھی درست ہے اسی طرح اصلاح عیوب کی خاطر اور بقصد نصیحت کسی کی برائی کو بیان کرنا کسی کے گواہ و شاہد کے حالات کی چھان بین اور اس کے بارے میں صحیح اطلاعات بہم پہنچانے کی خاطر اس کے عیوب کو بیان کرنا اور اخبار و احادیث کے راویان کی حثییت و شخصیت کو واضح کرنے کے لئے ان کے عیوب کو ظاہر کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں