جھوٹی اور مبالغہ آمیز تعریف کرنے والے کی مذمت
راوی:
وعن أبي بكرة قال أثنى رجل على رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال ويلك قطعت عنق أخيك ثلاثا من كان منكم مادحا لا محالة فليقل أحسب فلانا والله حسيبه إن كان يرى أنه كذلك ولا يزكي على الله أحدا . متفق عليه
" اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے ایک آدمی کی (مبالغہ آمیزی کے ساتھ) تعریف کرنی شروع کی ( اور وہ شخص جس کی تعریف کر رہا تھا وہ وہاں موجود تھا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کرنے والے سے فرمایا کہ افسوس ہے کہ تم پر تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی آپ نے یہ الفاظ تین بار دہرائے اور پھر یہ فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف کرناضروری سمجھے تو اس کو چاہیے کہ مثلا یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے یہ گمان رکھتا ہوں کہ وہ نیک آدمی ہے جب کہ اس شخص کی حقیقی حالت سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے اور وہی ان کے اعمال کا حساب لینے والا ہے نیز اگر تعریف کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے کہ اس نے جس شخص کی تعریف کی ہے وہ واقعتا ایساہی ہو تو اس صورت میں بھی وہ اللہ کی طرف سے کسی شخص پر جزم ویقین کے ساتھ حکم نہ لگائے۔ (بخاری، مسلم)
تشریح۔
کسی کی گردن کاٹنا اگرچہ اس کو ذبح کرنے اور اس کی جسمانی ہلاکت کے ہم معنی ہے لیکن یہاں " گردن کاٹنے" سے مراد روحانی ہلاکت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی کی تعریف کرتا ہے توہ (ممدوح اپنی تعریف سن کر غرور و تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے لہذا جس طرح کسی کی گردن کاٹ ڈالنا اس کو دنیاوی طور پر ہلاک کر دینے کے مرادف ہے اسی طرح منہ پر کسی کی تعریف کرنا گویا اس کو دینی اور اخروی طور پر ہلاکت میں ڈال دینا ہے جب کہ یہ تعریف بسا اوقات دنیاوی طور پر بھی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی تعریف سن کر اتنا زیادہ مغرور ہوگیا کہ کسی کا ناحق خون کر ڈالے اور پھر عدالت کی طرف سے سزائے موت کامستوجب ہو کر خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
" اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف ضروری سمجھے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی شخص کے اندر کوئی ایسا وصف دیکھو کہ جس کی وجہ سے وہ قابل تعریف ہو، مثلا کوئی شخص بہت زیادہ صالح ونیک ہو یا کوئی شخص بہت زیادہ خلیق ہو اور تم اس کی تعریف کرنا ہی چاہتے ہو تو اس صورت میں بھی یہ ضروری ہے کہ تم بس اپنے گمان کی حدتک اس کی تعریف کرو اس کے بارے میں جزم ویقین کے ساتھ فیصلہ نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ میں فلاں شخص کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں، اس جملہ کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا حقیقی حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس شخص کو بظاہر نیک و اچھا سمجھا جارہاہے ہوسکتا ہے کہ اس کے باطنی احوال سے اس درجہ کے نہ ہوں کہ وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو، لہذا جو شخص قابل تعریف ہو اس کی تعریف میں احتیاط کی راہ اختیار کرنی چاہیے اس کے بارے بالکل آخری فیصلہ نہ کرنا چاہیے کہ یہ شخص یقینا اچھا و نیک اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے ہاں ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے جن کو احادیث میں صراحت کے ساتھ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے اور جن کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک یقینا پسندیدہ ہیں جیسے عشرہ مبشرہ اور ان لوگوں کے علاوہ اور کسی شخص کے بارے میں اس جزم ویقین کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں شخص اللہ کے نزدیک اچھاہے۔