مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 758

کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال الرجل هلك الناس فهو أهلكهم . رواه مسلم . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے یعنی جہنم کی آگ کے مستوجب ہوگئے تو اس طرح کہنے والاسب سے زیادہ ہلاک ہونے والاہے۔ (مسلم)

تشریح۔
اگر کوئی شخص کچھ لوگوں، کو ایسے عقائد واعمال میں مبتلا دیکھے جو دین وشریعت کے خلاف ہوں تو ان کی اس حالت پر حسرت وافسوس کا ہونا اور غم خواری کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر بھی ہے اور اخوت اسلامی کا تقاضا بھی اب اگر وہ شخص اسی حسرت وافسوس اور غم خواری کے جذبات کے تحت ان لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک ہوگئے یعنی ان لوگوں نے ایسے عقائد واعمال کو اختیار کر لیا ہے جو ان کو دوزخ کی آگ میں دھکیل کر رہیں گے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس شخص کا یہ کہنا دراصل ان لوگوں کے تئیں ہمدردی وغم خواری کا مظہر ہوگا اور اس کا مطلب یہی سمجھاجائے گا کہ وہ شخص ان لوگوں کے برے احوال سے دل شکستہ ہے اور اس کا قلبی جذبہ یہ ہے کہ کاش وہ لوگ اس حالت میں مبتلا ہو کر اخروی ہلاکت و تباہی کے راستہ کو اختیار نہ کرتے اور جب وہ اس راہ پر پڑ گئے ہیں تواے کاش اب بھی ان کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ ابدی ہلاکت وتباہی کے خوف سے راہ راست پر لگ جائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان جذبات ہمدردی وغم خواری کے برعکس محض عیب جوئی حقارت اور ان لوگوں کو رحمت الٰہی سے مایوس کرنے کے لئے اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو یہ سخت برا ہوگا اور اس طرح کہنے والا شخص خود سب سے زیادہ ہلاکت وتباہی میں پڑے گا کیوں کہ اس کے ان الفاظ سے یہ سمجھاجائے گا کہ وہ اپنے نفس کی برائی اور اپنے اعمال کے غرور و تکبر میں مبتلا ہوگیا ہے دوسرے لوگوں کو چشم حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کو حق تعالیٰ کی رحمت سے نا امید کرتا ہے یہ مطلب اس صورت میں ہوگا کہ جب کہ لفظ اھلکم کاف کے پیش کے ساتھ یعنی بصیغہ تفضیل ہو اور اگر یہ لفظ کاف کے زیر کے ساتھ یعنی بصیغہ ماضی ہوجیسا کہ بعض روایتوں میں نقل کیا گیا ہے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ اس طرح کہنے والا ان کو ہلاک وبرباد کردیتا ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی شخص اپنے مشاہدہ کے مطابق بدعملیوں میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہے کہ وہ لوگ توہلاک وبرباد ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ رحمت الٰہی سے مایوس ہو کر ترک طاعت وعبادت اور ارتکاب معصیت و گناہ میں اور زیادہ مشغول ومنہمک ہوجاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے الفاظ ان گناہ گاروں کو شکستہ دل ، نا امید، اور بے شوق بنادیتے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے گویا دنیا ہی میں اللہ کے قہر وجلال میں گرفتار ہوئے ہیں اسی لئے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ بدعملیوں کی راہ اختیار کئے ہوئے ہوں اور معصیت کے اندھیروں نے جن کو گھیر رکھا ہو انہیں نہایت نرمی وملائمت اور شفقت ومحبت کے ساتھ تذکیرونصیحت کی جانی چاہیے اور ان پرسختی وتشدد کرنا ان کے حق میں سخت برا بن جاتا ہے اور وہ ضد ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے راہ راست پر آنے کی بجائے اور زیادہ گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا جو شخص ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور انہیں ہلاکت وبربادی کی خبر دیتا ہے وہ گویا انہیں ہلاکت وبربادی میں ڈالنے کا خود موجب بنتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد گرامی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ گاروں کو بھی مغفرت کی بشارت دینا چاہیے ان کے قلب وذہن کو دین وایمان پر پختہ کرنا چاہیے اور انہیں رحمت الٰہی کا امیدوار و طلبگار بنانا چاہیے۔

یہ حدیث شیئر کریں