کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے
راوی:
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا ينبغي لصديق أن يكون لعانا . رواه مسلم
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدیق کے لئے یہ جائز و مناسب نہیں ہے کہ بہت زیادہ لعنت کرنے والا ہو۔ (مسلم)
تشریح۔
صدیق مبالغہ کاصیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیاد سچا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صدیق اس شخص کو کہتے ہیں جس کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہ ہو بلکہ پوری یکسانیت ومطابقت ہو، صوفیاء کے ہاں صدیقیت ایک مقام ہے جس کا درجہ مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت کریمہ، ( فَاُولٰ ى ِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّ نَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَا ءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰ ى ِكَ رَفِيْقًا) 4۔ النساء : 69) ۔سے مفہوم ہوتا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صدق وراستی کے وصف سے مزین ہو اور ایسے اونچے مقام پر پہنچ چکاہو جو مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے اور اس اعتبار سے اس کے مرتبہ کو مرتبہ نبوت سے سب سے قریبی نسبت حاصل ہے تو اس کی شان یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں پر لعنت کرتا رہے اور نہ مقام صدیقیت کا مقتضاء ہوسکتا ہے کیونکہ کسی کو لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے ہک اس کو رحمت الٰہی اور بارگاہ الوہیت سے محروم قرار دیدیا جائے جب کہ تمام انبیاء کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ وہ مخلوق اللہ کو رحمت الٰہی سے بہریاب کریں اور جو بارگاہ الوہیت سے دور ہوچکے ہیں ان کو قریب تر لائیں اسی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا پسندیدی شیوہ یہ ہے کہ لعن طعن کو ترک کیا جائے اور کسی بھی شخص کو لعنت نہ کی جائے اگرچہ وہ اس لعنت کامستحق ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جو شخص اپنے قول وفعل کے ذریعہ اللہ کے نزدیک خود ملعون قرار دیا جا چکا ہے اس پر لعنت کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے لہذا کسی شخص پر لعنت کر کے گویا اپنی زبان کو خواہ مخواہ آلودہ کرنا اس کی لعنت میں اپنا وقت صرف کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے اور یہ کہ اسے لعن و طعن کر کے گویا اپنی جماعت حقہ کے شیوہ ومعمول کے برخلاف عمل کرنا ہے البتہ اس کافر پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بارے میں مخبرصادق یا اپناعلم ویقین یہ ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مراہے۔ واضح رہے کہ لعنت کی دو قسمیں ہیں ایک تو اس کامفہوم یہ ہوتا ہے کہ شخص کو بھلائی سے بالکل محروم اور رحمت الٰہی سے کلیۃ دور قرار دینا نیز اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل لامتناہی سے مطلق نا امید کردینا ، ایسی لعنت صرف کافروں کے لئے مخصوص ہے دوسری قسم کی لعنت کا مطلوب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو رضائے حق اور قرب الٰہی کے مقام سے دور و محروم قرار دیا جائے جو ترک اولی واحواط کا مرتکب ہو چنانچہ بعض اعمال کے ترک کے سلسلے میں جولعنت و ملامت منقول ہے اور جو بعض صحابہ کرام وغیرہ سے بھی نقل کی گئی ہے۔
لفظ" لعان" مبالغہ کاصیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیادہ لعنت کرنے والاحدیث میں یہ لفظ صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ عام طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اونچے سے اونچے درجہ کا مومن بھی تھوڑی بہت لعنت کرنے سے اجتناب کرتا ہو، چنانچہ ابن ملک نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اس لفظ کا بصیغہ مبالغہ ذکر ہونا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لعنت کرنے کی جو برائی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کے حق میں نہیں جس سے کبھی کبھار یعنی ایک مرتبہ یا دو مرتبہ لعنت کاصدور ہوجائے۔