مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 745

شعر کی برائی

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال بينا نحن نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعرج إذ عرض شاعر ينشد . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم خذوا الشيطان أو أمسكوا الشيطان لأن يمتلئ جوف رجل قيحا خير له من أن يمتلئ شعرا . رواه مسلم

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے دوران عرج میں تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے سے نمودار ہوا جو اشعار پڑھنے میں مشغول تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑ لو یا یہ فرمایا کہ اس شیطان کو جانے دو یعنی اس کوشعر پڑھنے سے روک دیا، یاد رکھو! انسان کا اپنے پیٹ کو پیپ سے بھرنا اس میں اشعار بھرنے سے بہترہے۔ (مسلم)

تشریح۔
عرج، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستہ میں پڑنے والی ایک گھاٹی کا نام ہے جہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی ہے اس راستے پر چلنے والے قافلے یہاں منزل کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی سفر ہجرت اور حجۃ الوداع میں اس جگہ سے گزرے تھے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حجۃ الوداع کے سفر کے دوران کا ہے۔ بہرحال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ شعر پڑھنے میں بری طرح مشغول ہے یہاں تک کہ اس کو وہاں موجود مسلمانوں کی طرف بھی کوئی التفات نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں سے صرف نظر کئے ہوئے بے محابا چلاجارہاہے۔ اور اس کوشوق شعر وشاعری نے اس درجہ بے باک بنا دیا ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی تقاضوں اور آداب زندگی کو فراموش کربیٹھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رگ وپے میں صرف شعر وشاعری ہی سرایت کئے ہوئے اور وہ پرلے درجے کا بے حیاء وبے ادب بن گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شیطان فرمایا جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص رحمت الٰہی اور قرب الٰہی سے بعد اختیار کئے ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس سے صورت حال کاصدور محض اس لئے ہوا کہ وہ اپنی شعروشاعری کے غرور نخوت میں مبتلا تھا اس لئے آپ نے شعر کی مذمت کی ۔

یہ حدیث شیئر کریں