مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 735

بے فائدہ بیان آرائی مکروہ ہے۔

راوی:

وعن أبي ثعلبة الخشني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن أحبكم إلي وأقربكم مني يوم القيامة أحاسنكم أخلاقا وإن أبغضكم إلي وأبعدكم مني مساويكم أخلاقا الثرثارون المتشدقون المتفيقهون . رواه البيهقي في شعب الإيمان وروى الترمذي نحوه عن جابر وفي روايته قالوا يا رسول الله قد علمنا الثرثارون والمتشدقون فما المتفيقهون ؟ قال المتكبرون . ( حسن )

" اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن مجھ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب اور میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے زیادہ خوش اخلاق ہیں اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے برے اور مجھ سے سے سب سے زیادہ وہ دور لوگ ہوں گے جو تم میں بد اخلاق ہیں ، بد اخلاق سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہت بنا بنا کر باتیں کرتے ہیں بغیر احتیاط کے بک بک لگاتے ہیں اور متفیہقین اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور ترمذی نے بھی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ثرثارون اور متشدقون کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں متفیھقون سے کیا مراد ہے یعنی متفیھق کسے کہتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکبر کرنے والے۔

تشریح
فیھق،،ضرورت سے زیادہ باتیں کرنا اور منہ پھیر کر کوئی بات کہنے کو کہتے ہیں جیسا کہ تکبر وغیرہ میں مبتلا لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو وہ کسی سے بات چیت کرتے ہیں تو ان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مخاطب کو بہت حقیر و ذلیل سمجھ رہے ہوں اور یہ بھی گوارا نہیں ہو رہا ہے کہ اس کی طرف منہ اٹھا کر ہی بات کریں بلکہ اس کی طرف سے چہرہ پھیر پھیر کر بات کرتے ہیں چنانچہ اسی معنوی لزوم کی وجہ سے متفیھقین کی وضاحت متکبرین کے ذریعہ کی گئی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بک بک لگانا، بے فائدہ و لا حاصل گفتگو کرنا بنا بنا کر باتیں کرنا اور بیا آرائی و مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقریریں کرنا مکروہ مذموم ہے لیکن حق کے تئیں لوگوں کے ذہن و فکر کو متاثر کرنے قلوب کو نرمانے اور عبادات و طاعات کی طرف سے متوجہ و راغب کرنے کے لئے وعظ و نصیحت میں جو بیان آرائی کی جائے اور طول بیان کی جاتی ہے وہ مذموم و مکروہ نہیں ہے لیکن اس صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ کہ انداز بیان اور طرز کلام ایسا اختیار کرنا چاہیے کہ جو آسانی سے لوگوں کو مقصد تک پہنچا دے اس کے برخلاف پیچیدہ و رقیق انداز مشکل لغات و الفاظ اور ایسی نکتہ چینی و حکمت آفرینی اختیار کرنا جو عام ذہن و فہم سے بالا تر ہو اور جس کی وجہ سے ان پڑھ لوگ اس کے وعظ و تقریر سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھا سکیں مناسب موزوں نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں