مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 733

شعری جہاد کی فضیلت

راوی:

عن كعب بن مالك أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم إن الله تعالى قد أنزل في الشعر ما أنزل . فقال النبي صلى الله عليه وسلم إن المؤمن يجاهد بسيفه ولسانه والذي نفسي بيده لكأنما ترمونهم به نضح النبل رواه في شرح السنة .
وفي الاستيعاب لابن عبد البر أنه قال يا رسول الله ماذا ترى في الشعر ؟ فقال إن المؤمن يجاهد بسيفه ولسانه

" اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ نے شعر و شاعری کے حق میں جو حکم دیا ہے وہ آیت ظاہر ہے جو اس نے نازل فرمائی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس بات کے جواب میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم کافروں کو اشعار کے ذریعہ اسی طرح زخم پہنچاتے ہو جس طرح تیروں کے ذریعہ۔ (محی السنہ)
اور عبدالبر کی کتاب استیعاب میں یوں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ شعر و شاعری کے متعلق آپ کیا حکم فرماتے ہو یہ کوئی اچھی چیز ہے یا بری؟ا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی۔

تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ تین حضرات شعراء اسلام میں ممتاز اور برتر حثییت رکھتے ہیں ان میں ایک تو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے دوسرے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تیسرے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تینوں حضرات اپنا الگ الگ شعری انداز و رخ رکھتے ہیں حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشعار خصوصیت سے ایسے مضامین پر مشتمل ہوتے تھے جو کفار و مشرکین کو جنگ و جہاد کے خوف میں مبتلا کرتے تھے، اور ان کے دلوں پر رعب و ہیبت کے اثرات مرتب کرتے تھے، حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اشعار کے ذریعہ دشمنان دین اور دشمنان رسول کے حسب و نسب پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشعار کا رخ کفار مشرکین کی توبیخ و سرزنش کی طرف رہتا تھا ۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ نے قرآن کریم کی یہ آیت (وَالشُّعَرَا ءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاو نَ ) 26۔ الشعراء : 224)، نازل فرمائی اور اس کے ذریعہ شعر و شاعری کی برائی اور اپنے احوال کے ذریعہ ان پر ظاہر فرمایا کہ شعر و شاعری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس میں برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کو غیر شرعی باتوں اور نامناسب مضامین کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے اور چونکہ عام طور پر شعراء فکر و خیال کی گمراہی اور زبان کلام کی بے اعتدالیوں کا شکار ہوتے ہیں اس لئے اللہ نے اس کی مذمت میں مذکورہ آیت نازل فرمائی ورنہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی شخص اپنے اشعار کو حق و صداقت کے اظہار باطل و ناحق کی تردید کا ذریعہ بنائے تو اس کی شعر و شاعری اس آیت کا محمول نہیں ہو گی بلکہ جو شعراء اپنے اشعار کے ذریعہ اللہ اور اللہ کے رسول کی خاطر کفار کا شعری مقابلہ کرتے ہیں اور ان کی ہجو کا جواب ہجو دے دے کر گویا دین اسلام کی تائید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں لہذا تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ نہ تمہارے اشعار اس آیت کی روشنی میں قابل مذمت ہیں اور نہ تم ان شعراء میں داخل ہو جن کی برائی ظاہر کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی گئی ہے کیونکہ خود اللہ نے تم جیسے شعراء کو اپنے اس قول کے ذریعہ مذکورہ آیت کے حکم سے باہر رکھا ہے کہ۔ آیت (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا)26۔ الشعراء : 227)

یہ حدیث شیئر کریں