مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 730

غزوہ خندق میں عبداللہ بن رواحہ کارجزیہ کلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر

راوی:

وعن البراء قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقل التراب يوم الخندق حتى اغبر بطنه يقول
والله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا
فأنزلن سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا
إن الأولى قد بغوا علينا إذا أرادوا فتنة أبينا
يرفع بها صوته أبينا أبينا . متفق عليه

" اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کھودے جانے کے دن خود بنفس نفیس مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے یعنی غزوہ احزاب کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی تو سرکار دو عالم بنفس نفیس سارے کام میں شریک تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ بھی بڑے بڑے پتھر اٹھاتے اور مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کا شکم مبارک غبار آلود ہو گیا تھا اور اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ رجزیہ کلام پڑھتے جاتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے۔
خدا کی قسم اگر اللہ کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم راہ راست نہیں پا سکتے تھے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے تھے۔
پس اے اللہ ہم پر وقار اور اطمینان نازل فرما و رجب دشمنان دین سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔
بے شک کفار مکہ نے ہم پر اس لئے زیادتی کی ہے جب وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کرنے یعنی کفر کی طرف واپس لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم انکار کر دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھتے تھے خصوصا ابینا ابینا پر آواز بلند ہو جاتی تھی۔

تشریح
یرفع بھا صوتہ میں بھا کی ضمیر لفظ ابینا کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا سے پہلے لفظ قائلا مقدر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان اشعار کو پڑھتے تو اخر میں لفظ ابینا کو بار بار دہراتے اور اس وقت آپ کی آواز کو زیادہ بلند کرتے اور اس سے مقصد اس لفظ کے مفہوم کو مؤ کد کرنا ، تلذذ و حظ حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں اور کافروں کے کانوں تک پہنچانا تھا۔طبی نے یہ لکھا ہے کہ بھا کی ضمیر ان اشعار کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا اس جملہ میں حال واقع ہو رہا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ تمام اشعار کو باآواز بلند پڑھتے تھے اور لفظ ابینا پر پہنچ کر آواز کو خصوصیت سے بلند کر دیتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں