مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 725

علم وحکمت کے حامل اشعار سننا مسنون ہے

راوی:

وعن عمرو بن الشريد عن أبيه قال ردفت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال هل معك من شعر أمية بن أبي الصلت شيء ؟ قلت نعم . قال هيه فأنشدته بيتا . فقال هيه ثم أنشدته بيتا فقال هيه ثم أنشدته مائة بيت . رواه مسلم

" اور حضرت عمر بن شرید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن سفر کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہیں امیہ بن ابی الصلت کے کچھ اشعار یاد ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ نے فرمایا اچھا سناؤ آپ کو میں نے ایک شعر سنایا آپ نے فرمایا اور سناؤ، میں نے پھر ایک شعر سنایا آپ اسی طرح مزید سنانے کی فرمائش کرتے رہے اور میں سناتا رہا یہاں تک کہ میں نے سو اشعار سنائے (مسلم)
تشریح
امیہ بن ابی الصلت بھی عرب کا ایک مشہور اور باکمال شاعر تھا اس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے عہد جاہلیت میں اہل کتاب سے دین سیکھا تھا اور دین داری کی باتیں کرتا تھا، حشر و نشر اور قیامت کے دن پر بھی عقیدہ رکھتا تھا اور اس کے اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح سے پر ہوتے تھے، چنانچہ آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا امن شعرہ و کفر قبلہ، یعنی اس کے اشعار سے ایمان جھلکتا ہے اگرچہ اس کا دل کفر میں مبتلا رہا ، اس کا ایک خاص مشغلہ یہ تھا کہ آسمانی کتب کا علم رکھنے والوں کے پاس آنا جانا رکھتا اور ان سے ان بشارتوں اور پیشگوئیوں کے بارے میں دریافت کرتا رہتا جو آسمانی کتابوں پر نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق مذکور تھیں، اس کا گمان تھا کہ اللہ نے اپنی کتابوں میں جن نبی آخرالزمان کی بعثت کی خبر دی ہے وہ میں ہوں، اور ایک نہ ایک دن مجھے نبوت کے خلعت فاخرہ سے نوازا جائے گا لیکن جب آسمانی کتب کے عالموں نے اس کو بتایا کہ وہ بنی قریش میں سے ہوں گے اور عاس کو نبی کی صفات تفصیل سے معلوم ہوئیں تو وہ اپنے عقائد و نظریات سے ایک دم پھر گیا اور حسند و عناد کی راہ پر چل کر کہنے لگا کہ مجھے اس نبی پر ہرگز ایمان نہ لانا چاہیے جس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے نہ ہو۔ ابن جوزی نے کتاب وفا میں یہ لکھا ہے کہ امیہ ابن ابی الصلت ابتداء میں تو نبی کی بعثت کا انتظار بڑی شدت سے کرتا تھا اور نبی کی نبوت کی جو علامتیں اور اوصاف سنتا تھا ان کی بنا پر یہ آرزو کرتا تھا کہ کاش میں ان کا زمانہ پاؤں اور ان کی خدمت کروں مگر نبی کا جب نور نبوت آشکار ہوا تو اپنی باتوں سے پھر گیا اور بغض و عناد اور سخاوت و سختی کی راہ اختیار کر لی۔بہرحال مذکورہ بالا حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ جو اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کو سننا مسنون ہے اگرچہ ان اشعار کو کہنے والا کوئی کافر و فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں