مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 705

ابوالحکم ، کنیت کی ناپسندیدگی۔

راوی:

عن شريح بن هانئ عن أبيه أنه لما وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مع قومه سمعهم يكنونه بأبي الحكم فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إن الله هو الحكم فلم تكنى أبا الحكم ؟ قال إن قومي إذا اختلفوا في شيء أتوني فحكمت بينهم فرضي كلا الفريقين بحكمي . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحسن هذا فما لك من الولد ؟ قال لي شريح ومسلم وعبد الله .
قال فمن أكبرهم ؟ قال قلت شريح . قال فأنت أبو شريح . رواه أبو داود والنسائي .

" حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے سنا کہ ان کی قوم ان کو ابوالحکم کی کنیت کے ذریعہ یاد و مخاطب کرتی ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا کہ حکم تو صرف اللہ ہے اور حکم اسی کی طرف سے ہے پھر تم نے اپنی کنیت ابوالحکم کیوں مقرر کی؟ حضرت ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میری قوم مجھ کو ابوالحکم کی کنیت کے ذریعہ اس لئے پکارتی ہے کہ جب میری قوم کے لوگ کسی معاملہ میں اختلافات کا شکار ہوتے ہیں تو میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے معاملہ میں جو فیصلہ کرتا ہوں وہ دونوں فریق تسلیم کر لیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ یعنی لوگوں کے تنازعات کو نمٹانا اور ان کے درمیان فیصلہ و حکم کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بتاؤ تمہارے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں انہوں نے کہا میرے تین بچے ہیں جن کے شریح، مسلم اور عبداللہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ان تینوں میں بڑا کون ہے؟ حضرت ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا شریح! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر آج سے تم ابوشریح ہو۔ (نسائی)

تشریح
کنیت کبھی تو کسی وصف وصفت کی طرف نسبت کر کے مقرر کی جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی کنیت ابوالفضل یا ابوالحکم اور ابوالخیر وغیرہ مقرر کرے کبھی اولاد کی طرف نسبت کر کے مقرر کی جاتی ہے جیسے ابوسلمہ یا ابوشریح وغیرہ، کبھی کنیت کا تعلق کسی ایسی خاص چیز کی طرف نسبت کرنے سے ہوتا ہے جس کے ساتھ انتہائی اختلاط اور ربط ہو جیسے ابوہریرہ چنانچہ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام عبداللہ تھا کہتے ہیں کہ ایک بلی ان کے پاس رہا کرتی تھی ایک دن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس بلی کو آستین میں لئے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ بلی ہے آپ نے فرمایا یا اباہریرہ، بس اس دن سے ان کی کنیت ابوہریرہ مشہور ہو گئی اور کبھی کنیت محض علمیت کے لئے یعنی اصل نام کے طور پر ہوتی ہے جیسے ابوبکر، اور ابوعمر وغیرہ۔
" اور حکم اسی کی طرف سے ہے" سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ حقیقی حکم اللہ کی ذات ہے اور ہر حکم و فیصلہ کی ابتداء و انتہا اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے کہ نہ صرف اس کے حکم و فیصلہ کو کوئی رد نہیں کر سکتا بلکہ اس کا حکم فیصلہ حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا اس اعتبار سے یہ وصف چونکہ اللہ کی صفات کے ساتھ خاص ہے اور وہی اس صفت کا سزا وار ہے اس لئے کسی دوسرے کو مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابوالحکم یعنی حکم و فیصلہ کا مالک کہے یا کہلائے کیونکہ اس صورت میں اللہ کے اس وصف خاص میں غیر اللہ کے شریک ہونے کا گمان پیدا ہوتا ہے اور بات ہے ابوت وابنیت کے وہم کی وجہ سے اس کی ذات پر ابوالحکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔

یہ حدیث شیئر کریں