مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 701

انگور کو کرم کہنے کی ممانعت

راوی:

وعنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تقولوا الكرم فإن الكرم قلب المؤمن . رواه مسلم . وفي رواية له عن وائل بن حجر قال لا تقولوا الكرم ولكن قولوا العنب والحبلة .

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (انگور کے درخت کو) کرم نہ کہو کیونکہ مومن کا دل ہے۔ مسلم۔ اور مسلم ہی کی ایک حدیث میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا انگور کے درخت کو کرم نہ کہو بلکہ عنب اور حبلہ کہو۔

تشریح
حبلہ، حاء اور باء کے زبر کے ساتھ، یاہاء کے زبر اور باء کے جزم کے ساتھ۔ اصل میں انگور کے درخت یا ایک قول کے مطابق انگور کی جڑ یا شاخ کو کہتے ہیں بعض مواقع پر مجازا انگور کو بھی حبلہ کہا گیا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انگور کو عنب یا حبلہ کہو یا اس کے اور جو نام ہیں وہ لیا کرو، لیکن اس کو کرم نہ کہا جائے اس کی ممانعت کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب انگور کو کرم کہا کرتے تھے کیونکہ انگور سے شراب بنتی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اس شراب کے پینے سے آدمی میں سخاوت و ہمت اور جود و کرم کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں چنانچہ جب شریعت نے شراب کو حرام کر دیا اور وہ ایک نجس و ناپاک چیز قرار پائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو کرم کہنے سے منع فرمایا کیونکہ ایک ایسی چیز کو مذکورہ نام کے ذریعہ کرم و خیر کے ساتھ متصف کرنا جو شراب جیسی ناپاک چیز کی جڑ ہے مناسب نہیں سمجھا گیا جب کہ انگور کو اتنے عمدہ نام یاد کرنے کا مطلب ایک حرام چیز کی تعریف و توصیف کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اس کی طرف سے دل و دماغ کو رغبت دلانا ہے نیز آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ کرم ایک ایسا اعلی لفظ ہے جو اپنے وسیع مفہوم کے اعتبار سے تمام بھلائیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس اعتبار سے اس لفظ کا مصداق مومن اور اس کا قلب ہی ہو سکتا ہے جو علم و تقوی کے نور کا مخزن اور اسرار معارف کا منبع ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں