نبی کی کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرو
راوی:
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال سموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي فإني إنما جعلت قاسما أقسم بينكم متفق عليه .
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو کیونکہ مجھ کو قاسم قرار دیا گیا ہے اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں (بخاری، مسلم)
تشریح
کنیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کی نسبت باپ یا بیٹے کی طرف کر کے اپنے کو مشہور و متعارف کرائے جیسے ابن فلاں، یا ابوفلاں، یعنی فلاں کا بیٹا فلاں کا باپ وغیرہ ، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کنیت اس نام کو کہتے ہیں جو باپ، بیٹا، یا بیٹی، ماں کے تعلق سے بولا جائے۔ اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مجھ کو جو علم اور حکمت دینی احکام ومسائل اور دنیاوی دولت جیسے مال غنیمت وغیرہ عطا کرتا ہے اس کو میں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتا ہوں بعض حضرات کے نزدیک یہ تقسیم کرتا ہوں سے مراد یہ ہے کہ میں اللہ کے نیک بندوں کو جنت اور دوسری نعمتوں کی بشارت و خوش خبری دیتا ہوں اور بدکار لوگوں کو دوزخ وغیرہ سے ڈراتا ہوں لہذا یہ صفت چونکہ تمہارے اندر موجود نہیں ہے اور تم اس مقام پر فائز نہیں ہو اس لئے تم میری کنیت کو اختیار کرنے کے مجاز نہیں البتہ اپنا نام یا اپنی اولاد کا نام لفظ اور صورۃ میرے نام رکھ سکتے ہو، حاصل یہ ہے کہ میں محض اس سب سے ابوالقاسم نہیں ہوں کہ میرے بیٹے کا نام قاسم ہے بلکہ مجھ میں قاسمیت کے معنی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے، بایں اعتبار کہ مجھ کو دینی ودنیاوی امور دولت کا تقسیم کنندہ قرار دیا گیا ہے لہذا جب میں نہ تو ذات کے اعتبار سے اور نہ صفات کے اعتبار سے تم میں سے کسی بھی شخص کی مانند ہوں تو تم کو میری کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرنی چاہے۔ واضح رہے کہ اس صورت میں ابوکے معنی باپ کے نہیں ہوں گے بلکہ اس وصف کے مالک ہوں گے جیسا کہ کسی شخص کو ابوالفضل کہا جائے درآنحالیکہ اس کے بیٹے کا نام فضل نہ ہو۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت پر مقرر کرنے کی ممانعت کا تعلق خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تھا تاکہ تخاطب کے وقت ذات نبوی اور دوسرے لوگوں کے درمیان اشتباہ کی صورت پیدا نہ ہو جیسا کہ ملا علی قاری نے لکھا ہے یہی قول صحیح ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ محمد نام رکھنا تو جائز ہے لیکن ابوالقاسم کنیت مقرر کرنا جائز نہیں خواہ یہ صورت ہو کہ جس شخص کا نام محمد ہو وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دینا چاہے اور خواہ یہ صورت ہو کہ نام کچھ اور ہو اور محض کنیت ابوالقاسم کرنا چاہے، حاصل یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دے خواہ اس کا نام محمد ہو یا کچھ اور ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور اصحاب ظواہر کا یہی قول ہے اور وہ انہیں حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں دوسرا قول محمد شیبانی کا ہے اور وہ یہ ہے کہ نام اور کنیت کو ایک ساتھ جمع کرنا درست نہیں ہے یعنی جس کا نام محمد ہو وہ اپنی کنیت ابوالقاسم نہ رکھے البتہ جس کا نام محمد نہ ہو اس کو صرف ابوالقاسم کہنا کہلانا جائز ہے ان کے نزدیک ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے لئے اس نام و کنیت کو ایک ساتھ اختیار نہ کرے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے یعنی جس شخص کا نام محمد ہو وہ بھی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھ سکتا ہے اس قول کی نسبت حضرت امام مالک کی طرف کی جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ جن احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے وہ منسوخ ہیں چنانچہ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اس ممانعت کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے تھا آپ کے بعد یہ جائز ہے اس جماعت کی دلیل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ اگر آپ کے بعد میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام و کنیت کی طرح رکھ لوں گا تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرمائی، چنانچہ حضرت محمد بن الحنفیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پیدا ہوئے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی کنیت ابوالقاسم رکھی ، ایک جماعت کہ جس کا قول ناقابل اعتماد ہے یہ کہتی ہے کہ کسی شخص کو نبی کا نام رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تمام اقوال کی روشنی میں جو قول سب سے صحیح اور حنفی مسلک کے مطابق ہے وہ یہ ہے کہ نبی کا نام رکھنا تو جائز بلکہ مستحب ہے لیکن نبی کی کنیت پر اپنی کنیت رکھنا اگرچہ اس کا تعلق نبی کے بعد سے ہو، ممنوع ہے اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ممنوع تر تھا اسی طرح نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنا بطریق اولی ممنوع ہوگا جہاں تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مذکور بالا روایت کا تعلق ہے تو وہ ان کے ساتھ ایک مخصوص معاملہ تھا جیسا کہ حدیث کے سیاق سے واضح ہوتا ہے لہذا ان کے علاوہ کسی اور کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت پر اپنی کنیت رکھے اس کی تائید ابن عساکر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو جمع الجوامع میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دن اسی مسئلہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے لڑکے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر محمد رکھا ہے اور اس کی کنیت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت پر ابوالقاسم رکھی ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک شخص کے لئے ان دونوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریشی صحابہ کو بلوایا ان سب نے حاضر ہو کر گواہی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخصوص طور پر اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے ہونے والے بچے کا نام و کنیت آپ کے نام و کنیت پر رکھ لیں۔