صحابہ کے ہنسنے کا ذکر۔
راوی:
عن قتادة قال سئل ابن عمر هل كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يضحكون ؟ قال نعم والإيمان في قلوبهم أعظم من الجبل . وقال بلال بن سعد أدركتهم يشتدون بين الأغراض ويضحك بعضهم إلى بعض فإذا كان الليل كانوا رهبانا . رواه في شرح السنة
" حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا رسول اللہ کے صحابہ ہنسا کرتے تھے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہاں، حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا، اور حضرت بلال ابن سعد تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو اس حال میں پایا کہ وہ دن میں تیر اندازی کی مشق کے وقت تیر کے نشانوں کے درمیان دوڑا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے مگر جب رات آتی تو وہ اللہ سے بہت ڈرنے والے ہو جاتے ۔ (شرح السنہ)
تشریح
حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا " کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ہنسنے مسکرانے کا موقع ہوتا تو وہ ہنسا کرتے تھے لیکن اس طرح نہیں ہنستے تھے جیسے اہل غفلت اور دنیا دار لوگ ہنستے ہیں کیوں کہ ایسی ہنسی جو حد سے بڑھی ہوئی ہو دل کو غافل کر دیتی ہے اور نور ایمان میں خلل ڈالتی ہے چنانچہ صحابہ ہنسنے کی حالت میں شرعی آداب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے اور اپنے ایمان کو کامل درجہ پر باقی رکھتے تھے۔ تو وہ اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے ہو جاتے کا مطلب یہ ہے کہ جب رات آتی تو صحابہ دنیا کے سارے کام کاج اور آرام و اراحت چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے اور خوف الٰہی کے غلبہ سے روتے گڑا گڑاتے اور مناجات و التجا میں مصروف رہتے۔