اس طرح نہ لیٹو کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں رہے اور کچھ سایہ میں
راوی:
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا كان أحدكم في الفيء فقلص الظل فصار بعضه في الشمس وبعضه في الظل فليقم . رواه أبو داود . وفي شرح السنة عنه . قال وإذا كان أحدكم في الفيء فقلص عنه فليقم فإنه مجلس الشيطان . هكذا رواه معمر موقوفا .
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو بایں طور کہ اس سایہ کی جگہ دھوپ آ جانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہاں سے اٹھ جائے اور ایسی جگہ جا کربیٹھ جائے جو پوری طرح سایہ میں یا پوری طرح دھوپ میں کیونکہ جب کوئی شخص ایسی جگہ بیٹھا رہتا لیٹتا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سایہ میں، تو اس کے جسم پر ایک ہی وقت میں دو متضاد چیزوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے اس کا مزاج بھی فساد و اختلال کا شکار ہو جاتا ہے۔ (ابوداؤد)
اور شرح السنہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ وہاں سے اٹھ جائے کیوں کہ ایسی جگہ کہ کچھ سایہ میں ہو اور کچھ دھوپ میں، شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے اسی طرح جیسا کہ شرح السنۃ میں ہے معمر نے بھی اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق موقوف نقل کیا ہے۔
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے آنحضرت کا ارشاد گرامی نہیں ہے لیکن واضح رہے کہ یہ موقوف حکم کے اعتبار سے مرفوع حدیث کے ہی درجہ میں ہے کیونکہ دین کی جو بات اجتہاد قیاس کے ذریعہ ثابت ہونے والی نہیں ہوتی اور اس کو کوئی صحابی اپنے قول کے طور پر نقل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی نے وہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور سنی ہے ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی صحابی دین کی کوئی ایسی بات نقل کرے جو اجتہاد قیاس سے باہر اور اس بات کو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہو۔شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے کہ بارے میں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے یعنی واقعۃ ایسا ہوتا ہے کہ شیطان اس جگہ بیٹھتا ہے جس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہوتا ہے اس اعتبار سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسی جگہ کی نسبت شیطان کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ شیطان جس شیطان کو پریشان کرنا چاہتا ہے اس کو ایسی جگہ پر بیٹھنے یا لیٹنے کی طرف راغب کرتا ہے اور گویا اس جگہ پر کسی شخص کے بیٹھنے یا لیٹنے کا سبب شیطان بنتا ہے اور اس سے شیطان اپنے مقصد کہ وہ شخص تکلیف و دکھ میں مبتلا ہو کامیاب ہو جاتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ شیطان جس طرح انسان کے دین کا دشمن ہے اسی طرح اس کے بدن کا بھی بدخواہ ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ کسی ایسی جگہ بھی بیٹھنا یا لیٹنا مکروہ ہے جو پوری طرح دھوپ میں ہو اگرچہ اس صورت میں ممانعت و کراہت کا سبب یہ نہیں ہوگا کہ ایسی جگہ شیطان کی نشست گاہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لئے ممنوع ہوگا کہ کہ پوری طرح دھوپ میں بیٹھنا گویا اپنے آپ کو تعب و مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہے اور اگر جاڑے موسم ہو تو پھر دھوپ میں بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔