مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 639

دوسرے کی جگہ پر بیٹھنے کی ممانعت

راوی:

وعن سعيد بن أبي الحسن قال جاءنا أبو بكرة في شهادة فقام له رجل من مجلسه فأبى أن يجلس فيه وقال إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ذا ونهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يمسح الرجل يده بثوب من لم يكسه . رواه أبو داود .

" اور حضرت سعید ابن ابوالحسن ، جو ایک جلیل القدر اور ثقہ تابعی ہیں اور حضرت حسن بصری کے بھائی ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس ایک ایسے مقدمہ میں گواہی دینے کے لئے تشریف لائے جس میں وہ گواہ تھے ایک شخص اس کے احترام میں اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا تاکہ وہ اس جگہ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے اس جگہ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے یعنی آپ نے اس جگہ پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں کوئی شخص پہلے سے بیٹھا ہوا ہو اور عارضی طور پر اس جگہ سے اٹھ گیا ہو، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایسے شخص کے کپڑے سے اپنے ہاتھ پونچھے جس کو اس نے کپڑا نہیں پہنایا۔ (ابوداود)

تشریح
حدیث میں مذکور دوسری ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کھانے وغیرہ میں ہاتھ بھر گئے ہوں تو ان ہاتھوں کو کسی اجنبی کے کپڑے سے نہ پونچھے بلکہ ایسے کپڑے سے ہاتھ پونچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کو اس نے کپڑے پہنائے اور دیئے ہوں جیسے اپنی اولاد، یا غلام، یاخادم، وغیرہ اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس اجنبی کے کپڑے سے پونچھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جو اس بات پر راضی ہو۔ اس پر حدیث کے پہلے جزو کے مسئلہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنی جگہ سے بخوشی اٹھا ہے تو اس کی جگہ بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ اس آیت ( تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ) 58۔ المجادلہ : 11) سے مفہوم ہوتا ہے اور جیسا کہ اس پر حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ نیز اس طرح اور بہت سے منقولات ہیں جن سے یہ وضاحت مفہوم ہوتی ہے رہی یہ بات کہ جب وہ شخص حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اپنی مرضی سے جگہ چھوڑ کر اٹھا تھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے کیوں انکار کیا؟ تو ان کے انکار کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس شخص کی رضا مندی کے بارے میں شک ہوا ہوگا اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص از خود بطیب خاطر اپنی جگہ سے نہیں اٹھا ہے بلکہ کسی اور شخص کے کہنے سے اٹھا ہے یا شرم حضوری میں اٹھا ہے اور یا یہ کہ اس شخص کی رضا مندی جاننے کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احتیاط و تقوی اسی میں دیکھا ہوگا کہ وہ اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں یا انہوں نے ممانعت کی حدیث کو اطلاق پر محمول کیا ہوگا اور رضا مندی کو بھی عدم ممانعت کا سبب نہیں سمجھتے ہوں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں