اپنی ماں وغیرہ کے گھر میں بھی اجازت لے کر جاؤ۔
راوی:
عن عطاء أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال استأذن على أمي ؟ فقال نعم فقال الرجل إني معها في البيت . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم استأذن عليها فقال الرجل إني خادمها . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم استأذن عليها أتحب أن تراها عريانة ؟ قال لا . قال فاستأذن عليها . رواه مالك مرسلا .
" اور حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے میں بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس کے جسم کے اعضاء کھلے ہوئے ہوں جو بیٹے کو بھی دیکھنا جائز نہیں ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہی رہتا ہوں (یعنی میں اور میری ماں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اس صورت میں مجھے اجازت طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے گویا اس شخص نے گمان کیا کہ اجازت حاصل کرنا اسی شخص کے لئے مشروع ہے جو بیگانہ ہو اور کبھی کبھار آتا جاتا ہو تو اجازت حاصل کر کے جاؤ اس نے کہا کہ میں اپنی ماں کا خادم ہوں۔ آپ نے فرمایا بہر صورت اجازت حاصل کر کے اس کے پاس جاؤ اور فرمایا کیا تم پسند کرو گے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھو یعنی تم اگر بغیر اجازت حاصل کئے اچانک اس کے پاس چلے جاؤ تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس وقت وہ کسی وجہ سے برہنہ بیٹھی ہو اور تمہاری نظر اس پر پڑ جائے۔ اس شخص نے کہا کہ ہرگز نہیں آپ نے فرمایا تو پھر اجازت حاصل کر کے اس کے پاس جایا کرو اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
تشریح
اس سلسلے میں ماں ہی کے حکم میں دیگر محارم بھی ہیں خواہ ان سے نسبی تعلق ہو یا دودھ کا اور خواہ سسرالی، حاصل یہ ہے کہ جن عورتوں سے پردہ کرنا شرعی طور پر ضروری نہیں ہے اور جن کو محارم کہا جاتا ہے اگر ان کے پاس بھی جائے تو اجازت حاصل کئے بغیر نہ جانا چاہیے البتہ بیوی اس حکم سے مستثنی ہے۔