جماعت میں سے کسی ایک کا سلام کرنا پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے
راوی:
وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال يجزئ عن الجماعة إذا مروا أن يسلم أحدهم ويجزئ عن الجلوس أن يرد أحدهم . رواه البيهقي في شعب الإيمان مرفوعا . وروى أبو داود وقال ورفعه الحسن بن علي وهو شيخ أبي داود .
اور حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کچھ لوگ گزر رہے ہوں تو ان میں سے کسی ایک کا سلام لینا ان سب کی طرف سے کافی ہوگا اسی طرح جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان میں سے کسی ایک کا جواب دینا ان سب کی طرف سے کافی ہوگا۔ اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق مرفوع نقل کیا ہے (یعنی بہیقی کی روایت کے مطابق یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے نہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا قول ہے) اور ابوداؤد نے اس روایت کو بطریق موقوف نقل کیا ہے نیز انہوں نے اپنی سند بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس روایت کو حسن ابن علی نے مرفوع بیان کیا ہے اور یہ حسن ابن علی (امام حسن ابن علی ابن ابی طالب نہیں بلکہ) وہ حسن ہیں جو ابوداؤد کے استاد وشیخ ہیں۔ (حاصل یہ کہ اس روایت کو بہیقی نے تو مرفوع نقل کیا ہے اور ابوداؤد نے بھی حسن ابن علی کی سند سے مرفوع نقل کیا ہے لیکن دوسری سند سے موقوف نقل کیا ہے۔)۔
تشریح
" گزر رہے ہوں" اس حکم میں وہ صورت بھی داخل ہے جب کہ وہ کچھ لوگ کسی ایسی جگہ جائیں یا کسی ایسی جگہ رکیں جہاں پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے ہوں ، یا ایک ہی شخص ہو، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنا سنت کفایہ ہے اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جن لوگوں کو سلام میں پہل کرنی چاہیے یا جن لوگوں کو سلام کا جواب دینا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کرے یا کوئی ایک شخص سلام کا جواب دیدے تو وہ سلام یا جواب میں ان سب لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا اور وہ سب بری الذمہ ہو جائیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا سلام کرنا یا ہر ایک کا جواب دینا افضل ہوگا۔