مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 547

چند خوابوں کی تعبیر

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اقترب الزمان لم يكد يكذب رؤيا المؤمن ورؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة وما كان من النبوة فإنه لا يكذب . قال محمد بن سيرين وأنا أقول الرؤيا ثلاث حديث النفس وتخويف الشيطان وبشرى من الله فمن رأى شيئا يكرهه فلا يقصه على أحد وليقم فليصل قال وكان يكره الغل في النوم ويعجبهم القيد ويقال القيد ثبات في الدين . قال البخاري رواه قتادة ويونس وهشام وأبو هلال عن ابن سيرين عن أبي هريرة وقال يونس لا أحسبه إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم في القيد .
وقال مسلم لا أدري هو في الحديث أم قاله ابن سيرين ؟ وفي رواية نحوه وأدرج في الحديث قوله وأكره الغل . . . إلى تمام الكلام .

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس وقت کہ زمانہ قریب ہوگا تو مؤمن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا اور مؤمن کا خواب نبوت کا چھیالیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے اور جو چیز نبوت کے اجزاء میں ہو وہ جھوٹی نہیں ہوا کرتی ۔" حضرت محمد بن سیرین جو (ایک جلیل القدر تابعی اور فن تعبیر خواب کے امام ہیں) فرماتے ہیں کہ اور میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث کی روشنی میں یہ کہتا ہوں کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو نفس کا خیال، دوسرے شیطان کا ڈرانا اور تیسرے اللہ کی طرف سے بشارت پس جو شخص کوئی برا خواب " (ڈراؤ نا ) دیکھے تو اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے اور ( یہ کرے کہ خواب دیکھنے کے بعد) اٹھے اور (نفل) نماز پڑھ لے تاکہ نماز کی برکت و نورانیت کے سبب اس کے دل کو اطمینان نصیب ہو اور خواب کی برائی کا جو وہم و وسوسہ دل میں پیدا ہو گیا ہے وہ جاتا رہے گا ) نیز ابن سیرین فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں طوق کو دیکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اور قید کو دیکھنا پسند فرماتے تھے چنانچہ کہا جاتا ہے (یعنی تعبیر خواب کے ماہر علماء کہتے ہیں) کہ قید کا مطلب دین پر ثابت قدم رہنا ہے یہ پوری روایت (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور ابن سیرین کے قول پر مشتمل ہے ) بخاری ومسلم نے نقل کی ہے لیکن روایت کے آخری جزو کے بارے میں دونوں کو تردد ہے چنانچہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو یعنی پوری روایت کو یا صرف اسی جزو کو کہ جس میں قید کا ذکر ہے قتادہ ، یونس ، ہشیم ، اور ابوہلال نے محمد بن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ابتدائی جزو بطریق مرفوع اور آخری جزو بطریق موقوف ) نقل کیا ہے اور یونس نے کہا ہے کہ میرا گمان ہے کہ یہ حدیث کا وہ جزو جس میں ابن سیرین نے قید کا ذکر کیا ہے یعنی یہ الفاظ یعجبہم القید والقید ثبات فی الدین ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (گویا بخاری کے اس قول کا مطلب یہ ہوا کہ ابن سیرین نے نقل کرنے والے ایک راوی یونس کے مطابق روایت کا وہ جزو کہ جس میں طوق کا ذکر ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ابن سیرین کا اپنا قول ہے، البتہ وہ جزو کہ جس میں قید کا ذکر ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ابن سیرین کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ حدیث مرفوع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محمد بن سیرین نے نقل کیا ہے ') اور امام مسلم نے جو (ابن سیرین سے روایت نقل کر کے ) یہ کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ( جزء کہ جس میں قید کے الفاظ ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے الفاظ ہیں یا ابن سیرین کا اپنا قول ہے، مسلم کی ایک اور روایت میں اسی طرح کے الفاظ ہیں نیز مسلم نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا محمد بن سیرین نے حدیث میں ادراج کیا ہے ۔ بایں طور کہ انہوں نے کہا میں طوق کو دیکھنا اچھا سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ (گویا مسلم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کا پورا آخری جزو، جو طوق اور قید کے ذکر پر مشتمل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے ، بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا محمد بن سیرین کا اپنا قول ہے نیز بخاری ومسلم کے ان اقوال کی روشنی میں قال و کان یکرہ کی ضمیروں کی حقیقت حال بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ ان ضمیروں کو کس کی طرف راجع ہونا چاہئے !"

تشریح
جس وقت کہ زمانہ قریب ہو گا کے تین معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک تو یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد قرب قیامت کا آخری زمانہ ہے جیسا کہ ایک اور حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں قیامت کے قریب مؤمن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا دوسرے یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد موت کے زمانہ سے قریب ہونا ہے یعنی جس مؤمن کی موت کا زمانہ قریب ہوتا ہے اس کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا یہ معنی حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے بعض مشائخ سے نقل کئے ہیں تیسرے یہ کہ اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں دن رات برابر ہوتے ہیں چنانچہ جس زمانہ میں دن رات برابر ہوتے ہیں ان میں انسانی مزاج اعتدال پر ہوتا ہے اور ذہن وفکر کی صلاحتیں صحت و سلامت روی کے ساتھ کام کرتی ہیں ایسے دنوں میں دیکھا جانے والا خواب ذہنی وجسمانی خلل وانتشار سے محفوظ اور زیادہ سچا ہوتا ہے چوتھے یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد وہ زمانہ ہے جب سال مہینہ کی طرح مہینہ ہفتہ کی طرح ہفتہ دن کی اور دن ساعت کی طرح گزرنے لگے علماء نے لکھا ہے کہ ایسا زمانہ حضرت امام مہدی کے دور میں آئے گا کیونکہ اس وقت حضرت امام مہدی کے عدل و انصاف اور رعایا پروری کی وجہ سے سب ہی لوگ آسودگی و مسرت اور بے فکری کے دن گزاریں گے اور ظاہر ہے کہ آسودگی وبے فکری کے دن بڑی سرعت کے ساتھ گزرتے معلوم ہوتے ہین خواہ وہ کتنا ہی طویل زمانہ کیوں نہ ہو اس کے برعکس عسرت و تنگی اور محنت مشقت کے دن اتنے بھاری معلوم ہوتے ہیں کہ خواہ وہ کتنا ہی مختصر عرصہ کیوں نہ ہو ایک ایک دن پہاڑ کی طرح گزرتا ہے ، لہٰذا حضرت مہدی کے زمانہ میں بھی خواب صحیح و درست ہوں گے کیوں کہ وہ راستی کا زمانہ ہوگا ، ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جتنا زیادہ راست باز ہوگا اس کا خواب اتنا ہی سچا ہوگا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی سے چونکہ مطلق خواب سچا ہونا اور اس کی توصیف و فضیلت واضح ہوتی تھی تو اس لئے خواب کی قسمیں بیان کرنے کے لئے حضرت محمد بن سیرین کا ایک قول نقل کیا گیا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خواب کی ہر قسم نہ تو سچی ہوتی ہے اور نہ قابل تعبیر ولائق اعتبار، بلکہ خواب کی صرف وہی قسم تعبیر ولائق اعتبار ہوتی ہے جس کو حق تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور آئندہ پیش آنے والے واقعات و حادثات کی خبر و علامت قرار دیا جاتا ہے ۔
ابن سیرین نے خواب کی جو تین قسمیں بیان کی ہیں ان میں پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اور اس کے دل ودماغ پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکل ہو کر نظر آتی ہیں مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ و روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن و خیال انہیں باتوں کی فکر اور ادھیڑ پن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ و روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اور اس کے ذہن پر ہر وقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے غرضکہ عالم بیداری میں جس شخص کے ذہن و خیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے وہی اس کو خواب میں نظر آئے گی لہٰذا اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں ۔
دوسری قسم ڈراؤ نا خواب ہے ، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پر تو ہوتا ہے، شیطان چونکہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور جس طرح وہ عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا ، چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اور ڈرانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے کبھی تو وہ کسی ڈراونی شکل و صورت میں نظر آتا ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہو گیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہو جاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے پہلی قسم کی طرح یہ قسم بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے ۔
خواب کی تیسری قسم وہ ہے کہ جس میں منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اور اس کے قلب کے آئینہ میں بطور اشارات و علامات ان چیزوں کو مشکل کر کے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے ۔ یا جن کا تعلق مؤمن کی روحانی و قلبی بالیدگی و طمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے ، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اور جس کی فضیلت و تعریف احادیث میں بیان کی گئی ہے ۔
تو اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے " کا مطلب یہ ہے کہ جب اس طرح کا خواب بے اعتبار ہے اور اس کی کوئی تعبیر نہیں تو اس کو کسی کے سامنے بیان کرنا عبث ولا حاصل ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب اس قسم کے خواب کو کسی کے سامنے بیان کرے گا اور سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر اس کی خراب تعبیر دے گا ۔ تو اس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا اور بدشگونی لینا لازم آئے گا نیز دل و دماغ مختلف قسم کے اندیشوں اور وسوسوں سے پریشان ہو جائیں گے ، مزید برآں خواب کے وقوع پذیر ہونے میں خواب کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے کہ خواب کو سننے والا جو تعبیر دیتا ہے اللہ تعالیٰ سے ویسا ہی وقوع پذیر ہو جاتا ہے ۔
" قال وکان یکرہ الغل الخ " میں لفظ قال اور کان کی ضمیروں کے بارے میں شارحین حدیث نے کئی احتمال لکھے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ قال کی ضمیر محمد بن سیرین کی طرف سے راجع ہو جیسا کہ ما قبل کی عبارت قال محمد بن سیرین سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے اور اس بنا پر کان یکرہ کی ضمیریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع ہوں، اس صورت میں مذکورہ جملہ کے معنی وہی ہوں گے جو ترجمہ میں بیان کئے گئے یعنی حضرت محمد بن سیرین نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہے کیونکہ گلے میں طوق کا ڈالا جانا دوزخیوں کی صفت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے اذالاغلال فی اعناقہم دوسرا احتمال یہ ہے کہ " قال " کی ضمیر تو ابن سیرین کی طرف راجع ہو اور کان یکرہ کی ضمیریں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف راجع ہوں اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ابن سیرین نے کہا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس بات کو اچھا نہ سمجھنا یا تو اس پر تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہو گا یا اپنے ان کے اجتہاد کی بنا پر تھا ۔ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ قال کی ضمیر تو اس راوی کی طرف راجع ہو جس نے اس حدیث کو حضرت ابن سیرین سے نقل کیا ہے اور کان یکرہ کی ضمیریں حضرت ابن سیرین کی طرف راجع ہوں اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ راوی نے کہا کہ حضرت ابن سیرین خواب میں طوق کو دیکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے، ! بظاہر یہ تیسرا احتمال ایک طرح کی ترجیح رکھتا ہے کیوں کہ حضرت ابن سیرین تعبیر خواب کے فن کے امام سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اس طرح کے بہت سے اقوال منقول ہیں ۔
اور قید کو دیکھنا پسند فرماتے تھے یعنی کوئی شخص خواب میں دیکھتا کہ اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اس کو قیدی بنا لیا گیا ہے تو اس خواب کو اچھا سمجھتے تھے ، بخاری نے اس جملہ میں جمع کا صیغہ یعنی لفظ یعجبہم نقل کیا ہے ، لہٰذا ضمیروں کے سلسلے میں اوپر نقل کئے گئے احتمالات میں سے پہلے احتمال کی بنا پر یعجبہم کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی طرف راجع ہو گی دوسرے احتمال کی بنا پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تابعین کی طرف اور تیسرے احتمال کی بنا پر حضرت ابن سیرین اور ان کے زمانہ کے تعبیر دینے والے علماء کی طرف راجع ہو گی ۔خواب میں اپنے کو قیدی دیکھنا اس لئے اچھا ہے کہ دراصل برے امور ، گناہوں اور کمزوری و گمراہی سے باز رہنے اور دینی احکامات و طاعت پر ثابت قدم رہنے کی علامت ہے جیسا کہ روایت میں فرمایا گیا ہے ۔ ویقال القید ثبات فی الدین (کہا جاتا ہے کہ قید کا مطلب دین پر ثابت قدم رہنا ہے ) لیکن واضح رہے کہ یہ تعبیر اہل دین و طاعت کی نسبت سے ہے یعنی جو شخص دینی زندگی کا حامل اور عبادات و طاعات پر عامل ہو گا اور وہ خواب میں اپنے کو قیدی دیکھے گا تو اس کے لئے تو مذکورہ تعبیر ہوگی اسی لئے تعبیر خواب کے ماہرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی بیمار یا قیدی، یا مسافر اور یا کوئی مصیبت زدہ شخص خواب میں دیکھے کہ میرے پیروں میں قید کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں تو اس حق میں خواب کی یہ تعبیر ہوگی کہ وہ اپنے حال پر قائم رہے گا اسی طرح ایک ہی خواب کو دو مختلف حالت کے آدمی دیکھیں تو اس کی تعبیر ان کے حق میں ان کی حالت کے مطابق الگ الگ ہوگی، مثلا اگر کوئی تاجر یہ خواب دیکھے کہ وہ اپنا سامان لے کر کشتی پر بیٹھا ہوا ہے اور ہوا کشتی کے موافق چل رہی ہے تو اس کے حق میں خواب نقصان و ضرر سے سلامتی اور تجارت میں نفع کی علامت قرار پائے گا اور اگر یہی خواب کوئی سالک طریقت دیکھے تو اس کے حق میں یہ خواب شریعت کی اتباع اور مرتبہ حقیقت کو پہنچنے کی علامت قرار پائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں