مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 54

جس گھی میں چوہا گر جائے اس کا حکم

راوی:

وعن ميمونة أن فأرة وقعت في سمن فماتت فسئل رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " ألقوها وما حولها وكلوه " . رواه البخاري

" اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گر پڑا اور مر گیا ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ( اس گھی کا کیا کیا جائے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اس چوہے کو اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال کر پھینک دو اور ( باقی ) گھی کو کھاؤ ۔ " ( بخاری )

تشریح
یہ اس گھی کا حکم ہے جو جما ہوا ہو اور جو گھی پگھلا ہوا ہو وہ تو اس صورت میں سارا نجس ہو جاتا ہے اور بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں ، اس طرح اس گھی کو بیچنا بھی اکثر ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے ۔ البتہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کے بیچنے کو جائز رکھا ہے ۔
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا اس گھی سے کوئی اور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک اس سے کوئی بھی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کو چراغ میں جلانے ، کشتیوں پر ملنے یا اس طرح کے کسی اور مصرف میں لا کر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ یہ قول حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ہے ، اور حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول جو زیادہ مشہور ہے، بھی یہی ہے ۔ لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے ۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد سے دو روایتیں منقول ہیں ۔ حضرت امام مالک سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس گھی کو مسجد کے چراغ میں جلانا جائز نہیں ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں