نجومی اور کاہن غیب کی باتیں کس طرح بتاتے ہیں ؟
راوی:
عن أبي هريرة أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال إذا قضى الله الأمر في السماء ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله كأنه سلسلة على صفوان فإذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم ؟ قالوا للذي قال الحق وهو العلي الكبير فسمعها مسترقوا السمع ومسترقوا السمع هكذا بعضه فوق بعض ووصف سفيان بكفه فحرفها وبدد بين أصابعه فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته ثم يلقيها الآخر إلى من تحته حتى يلقيها على لسان الساحر أو الكاهن . فربما أدرك الشهاب قبل أن يلقيها وربما ألقاها قبل أن يدركه فكذب معها مائة كذبة فيقال أليس قد قال لنا يوم كذا وكذا كذا وكذا ؟ فيصدق بتلك الكلمة التي سمعت من السماء . رواه البخاري .
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی چیز کا حکم جاری کرتا ہے ۔ تو فرشتے اللہ کے فرمان سن کر خوف و عاجزی سے اپنے بازو کو پھڑ پھڑانے لگتے ہیں (یعنی فرشتے حکم الہٰی کی ہیبت و عظمت سے مارے ڈر کے پرندوں کی طرح اپنے چکھ پھیلا دیتے ہیں اور لرزنے کانپنے لگتے ہیں ) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی اس کے کلام کی آواز(گویا ) اس زنجیر کی آواز کی مانند ہوتی ہے جس کو صاف پتھر پر کھینچا جائے پھر جب فرشتوں کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ (نیچے رہنے والے ) تمام فرشتے مقرب فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم جاری فرمایا ہے ، مقرب فرشتے وہ حکم بتاتے ہیں جو پروردگار نے جاری کیا ہے ( یا مقرب فرشتے دریافت کرنے والے فرشتوں سے کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پروردگار نے فرمایا ہے ) حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بلند قدر اور بلند مرتبہ ہے ۔چنانچہ ان باتوں کو (جو فرشتوں کے درمیان ہوتی ہیں ) چوری چھپے سننے والے (یعنی جنات و شیاطین ) سن لیتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والوں کی ہیت کو اپنے ہاتھ (کی انگلیوں ) کے ذریعہ بیان کیا چنانچہ انہوں نے ہاتھ کو ٹیڑھا کر کے انگلیوں کے درمیان فرق کیا (یعنی حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے اوپر تلے ہونے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ جنات و شیاطین آسمان سے زمین تک اس طرح سلسلہ وار اور اوپر تلے کھڑے رہتے ہیں ) اور اوپر والا جن فرشتوں کی بات کو چوری چھپے سن کر اپنے نیچے والے جن کو پہنچا دیتا ہے اور وہ اپنے نیچے والے جن کو پہنچاتا ہے یہاں تک کہ آخری جن (جو سب سے نیچے ہوتا ہے ) اس بات کو ساحر یا کاہن کی زبان تک پہنچاتا ہے ادہر (ان جنات و شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لئے آسمان سے شعلے پھینکے جاتے ہیں تو) کبھی تو یہ شعلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچانے سے پہلے ہی چوری چھپے سننے والے (جن کو ) آ پکڑتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ جن اس شعلے کے پہنچنے سے پہلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچ جاتی ہیں تو وہ اس میں سو جھوٹی باتیں شامل کر لیتا ہے (اور لوگوں کے سامنے ان جھوٹی باتوں کے درمیان وہ بات بھی بیان کرتا ہے جو اس تک جنات و شیاطین کے ذریعہ پہنچتی ہے ) چنانچہ جب کوئی شخص اس کاہن کو (اس کی بتائی ہوئی باتوں میں سے جھوٹی باتوں کے ذریعہ ) جھٹلاتا ہے ( یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے جو فلاں فلاں بات کہی تھی ثابت ہوئی ) تو (ان گمراہ لوگوں کی طرف سے جو کاہن کی باتوں کو سچا جانتے ہیں جھٹلانے والے کے سامنے ) یہ کہا جاتا ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ اس کاہن نے فلاں فلاں دن ہم سے فلاں بات کہی تھی اور اس طرح اس کاہن کی سچائی کی تصدیق اس بات سے کی جاتی ہے جو اس تک (جنات کے ذریعہ ) آسمان سے پہنچتی تھی ۔" (بخاری )
تشریح
حدیث میں وہ صورت بیان کی گئی ہے جو کاہنوں تک غیب کی باتیں پہنچنے کا سبب بنتی ہے اس کے ساتھ حدیث کے آخر میں اس گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کاہن کی بتائی ہوئی اکثر باتیں جھوٹ ثابت ہوتی ہیں اور لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں تو وہ لوگ جو کاہن کی سچائی کا اعتقاد رکھتے ہیں اور باطن کی گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں اس کاہن کی ساری جھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف اس بات کا حوالہ دے کر اس کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنات و شیاطین فرشتوں سے چوری چھپے سن کر کاہن تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو واقعہ کے مطابق ہوتی ہے یہی صورت نجومیوں کے بارے میں بھی ہوتی ہے کہ جب سینکڑوں باتیں بتاتے ہیں اور اس میں کوئی بات اتفاق سے صحیح ثابت ہو جاتی ہے تو وہ دنیا دار لوگ جن کے باطن میں گمراہی و کجی ہوتی ہے اس ایک بات کی بنیاد پر ان نجومیوں کے معتقد ہو جاتے ہیں ۔
آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک روایت آ رہی ہے جس میں صراحت کے ساتھ کاہن کو ساحر فرمایا گیا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کے ان الفاظ علی لسان الساحر او الکاہن میں ساحر سے مراد کاہن ہے اس صورت میں حرف او راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہوگا (یعنی یہ کہا جائے گا کہ راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ساحر کا لفظ فرمایا گیا ہے یا کاہن کا ) اور اگر یہ بات پیش نظر ہو کہ ساحر چونکہ غیب کی باتیں نہیں بتایا کرتا اور اس اعتبار سے یہاں ساحر کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہو سکتا تو یہ کہا جائے گا کہ " ساحر " سے مراد نجومی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے المنجم ساحر یعنی نجومی ساحر ہے اس صورت میں الساحر والکاہن میں حرف او تنویع کے لئے ہوگا ۔
رہی یہ بات کہ چوری چھپے آسمان میں داخل ہونے اور فرشتوں کی باتیں سننے والے جن و شیطان کو بھگانے کے لئے جب شعلے پھینکے جاتے ہیں اور وہ شعلے اس جن یا شیطان کو پکڑتے ہیں تو اس کا حشر کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ جن یا شیطان ان شعلوں کی زد میں آ کر جل بھن جاتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں جب کہ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ وہ جل بھن کر ختم نہیں ہوتے بلکہ شعلوں سے تکلیف و ایذاء پا کر زندہ واپس آ جاتے ہیں ۔