کہانت کا بیان
راوی:
صراح میں لکھا ہے کہ کہانت فال گوئی کو کہتے ہیں اور اس ( فال گوئی ) کے پیشہ و ہنر کو کہانت کہا جاتا ہے اسی طرح فال گو کاہن کہتے ہیں طیبی کہتے ہیں کہ کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو آئندہ پیش آنے والے واقعات و حوادث کی خبر دے اور علم غیب و معرفت اسرار کا دعوی کرے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں کہانت کا بڑا رواج تھا اہل عرب کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد بھروسہ کرتے تھے ان میں سے بعض کاہن یہ دعوی کرتے تھے کہ جو جنات آسمان پر جاتے ہیں وہ وہاں کی باتیں ہم کو بتا دیتے ہیں یہ بات تو روایت سے بھی ثابت ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے شیاطین چوری چھپے آسمان پر جاتے وہاں دنیا میں آئندہ پیش آنے والے واقعات جن کا تذکرہ فرشتوں میں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو جو احکام دیئے جاتے وہ شیاطین ان کو ادھر ادھر چھپ کر سن لیتے تھے اور پھر زمین پر آ کر ان میں اپنی من پسند باتوں کا اضافہ کر کے اور جھوٹ ملا کر اپنے متبعین کو بتا دیتے وہ لوگ ان سب باتوں کو صحیح مان کر تسلیم کرتے اور ان کے ذریعہ اہل عرب پر اپنی غیب دانی کا سکہ جماتے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب شیاطین کو آسمان پر جانے سے روک دیا گیا اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا ۔ تو کہانت کا کام بھی تمام ہو گیا ۔
کہانت ہی کی طرح کی ایک چیز عرافت بھی تھی کچھ لوگ بعض مخصوص چیزوں اور کچھ علامات و مقدمات کے ذریعہ پوشیدہ چیزوں کی خبر دیتے تھے، جیسے رمل جاننے والوں کی طرح وہ بھی بتا دیتے تھے کہ چوری کا مال کہاں موجود ہے ۔ یا گمشدہ شخص کس جگہ ہے وغیرہ وغیرہ ایسے لوگوں کو عراف کہا جاتا تھا بعض مواقع پر کاہن کا اطلاق عراف اور منجم پر بھی ہوتا ہے علماء لکھتے ہیں کہ کہانت، عرافت، اور رمل و نجوم کا علم حرام ہے کہ ان کا سیکھنا اور ان پر عمل کرنا شریعت نے قطعا روا نہیں رکھا ہے اسی لئے ان علوم کے ذریعہ کمایا ہوا مال بھی حرام ہوتا ہے، لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں جو لوگ دنیاوی طور پر یا دینی طور پر مخلوق اللہ کی دیکھ بھال اور ان کی ہدایت و راہنمائی پر مامور ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو ان چیزوں میں پڑنے سے روکیں اور جو لوگ ان میں مبتلا ہیں ان کو تادیب و تنبیہ کریں