مکان میں بے برکتی کا ذکر
راوی:
وعن أنس قال قال رجل يا رسول الله إنا كنا في دار كثر فيها عددنا وأموالنا فتحولنا إلى دار قل فيها عددنا وأموالنا . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذروها ذميمة . رواه أبو داود .
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن بارگاہ رسالت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہم ایک مکان میں رہا کرتے تھے جس میں ہمارے افراد کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی بہت تھا ، پھر ہم ایک دوسرے مکان میں منتقل ہو گئے تو اس میں ہمارے آدمیوں کی تعداد بھی کم ہو گئی اور ہمارے مال بھی تھوڑا رہ گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا کہ اس مکان کو چھوڑ دو جو برا ہے ۔" (ابوداؤد )۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس مکان کو چھوڑ دینے کا حکم اس مکان کو منحوس سمجھنے کی بنا پر نہیں تھا ۔ بلکہ اس مکان کی آب و ہوا اور اس کی سکونت چونکہ مکینوں کو راس نہیں آئی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ مکان کو چھوڑ دیں ۔
خطابی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مکان چھوڑ دینے کا حکم اس مصلحت کے پیش نظر دیا کہ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ سارے نقصان اور ساری جڑ مکان ہے اگر ہم اس مکان میں نہ رہتے تو نہ ہمارے آدمیوں میں کمی آتی اور نہ ہمارے مال و اسباب کا نقصان ہوتا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکان چھوڑ دینے کا حکم ہی بہتر سمجھا ۔ تاکہ ان کے غلط خیال اور واہمہ کی جڑ ہی کٹ جائے اور یہ شرک خفی کے گرداب میں نہ پھنسیں ۔