مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 521

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیک فال لینے کے لئے اچھے ناموں کا سننا پسند فرماتے تھے

راوی:

وعن بريدة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يتطير من شيء فإذا بعث عاملا سأل عن اسمه فإذا أعجبه اسمه فرح به ورئي بشر ذلك على وجهه وإن كره اسمه رئي كراهية ذلك على وجهه وإذا دخل قرية سأل عن اسمها فإن أعجبه اسمها فرح به ورئي بشر ذلك في وجهه وإن كره اسمها رئي كراهية ذلك في وجهه . رواه أبو داود . ( حسن )

اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے شگون بد نہ لیتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی عامل (کارکن کو کہیں ) روانہ کرنے لگتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، اگر اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی سے ظاہر ہوتی (یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نام کو کسی اچھے نام سے بدل دیتے ) اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس بستی کا نام پوچھتے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو اس سے خوش ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوتی ( ابوداؤد )

تشریح
کسی برے نام کو سن کر ناگواری ہونا تطیر ( یعنی شگون بد لینا ) نہیں ہے تطیر تو اس صورت میں ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم برے نام کو سن کر اپنے کام یا اپنے سفر کو ترک کر دیتے جیسا کہ شگون بد لینے کی صورت میں ہوتا ہے تاہم کسی شخص یا آبادی کا برا اور بھدا نام سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ناگواری کے اثرات نمایاں ہوتے تھے کیونکہ طبیعت کا اچھائی وبرائی سے متاثر ہونا اور اس کے نتیجے میں خوشی یا ناخوشی کا ظاہر ہونا تفاؤل وتطیر سے قطع نظر ایک فطری بات ہے ۔
ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد یا اپنے خادم کے لئے اچھے نام کو اختیار کرنا سنت ہے، کیونکہ بسا اوقات برے نام تقدیر کے موافق ہو جاتے ہیں اور اس کے نتائج دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں ۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پر خود وہ شخص یا اس کا وہ بیٹا تقدیر الہٰی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچے کہ لوگ اس کو منحوس جاننے لگیں اور اس کی صحبت وہم نشینی تک سے احتراز کرنے لگیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں