دریا کے مرے ہوئے جانور کو کھانے کا واقعہ
راوی:
وعن جابر قال : غزوت جيش الخبط وأمر علينا أبو عبيدة فجعنا جوعا شديدا فألقى البحر حوتا ميتا لم نر مثله يقال له : العنبر فأكلنا منه نصف شهر فأخذ أبو عبيدة عظما من عظامه فمر الراكب تحته فلما قدمنا ذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فقال : " كلوا رزقا أخرجه الله إليكم وأطعمونا إن كان معكم " قال : فأرسلنا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم منه فأكله
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جیش الخبط یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والے لشکر کے ساتھ جہاد کے لئے جانے والوں میں میں بھی شریک تھا ، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لشکر کے امیر ( سپہ سالار ) بنائے گئے تھے چنانچہ ( جب ) ہم سخت بھوکے ہوئے تو دریا ( سمندر) نے ایک مری ہوئی مچھلی ( اپنے کنارے پر ) پھینک دی ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی اس قسم کی مچھلی کو عنبر کہا جاتا تھا ۔ چنانچہ ہم نے اس میں سے آدھے مہینے تک ( بڑی فراخی کے ساتھ ) کھایا ، پھڑ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی یعنی اس کی ایک پسلی کھڑی کی تو اس کے نیچے سے ایک اونٹ سوار ( بڑی آسانی کے ساتھ ) گزر گیا ، اس کے بعد جب ہم ( مدینہ واپس ) آئے تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعہ کا ذکر کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جس رزق کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بہم پہنچایا ہے اس کو کھاؤ ( یعنی تم نے یہ اچھا کیا کہ اس مچھلی کو کھایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارا رزق بنا کر تمہارے لئے بہم پہنچایا تھا ۔ یا یہ کہ اگر اس طرح کا کوئی اور رزق پاؤ تو اس کو کھاؤ ) اور اگر اس مچھلی میں کوئی حضہ تمہارے پاس ( باقی رہا ) ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ ( یہ بات گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس مچھلی کے حلال ہونے کے حکم کو مؤ کد کرنے کی غرض سے فرمائی تاکہ ان لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ وہ مچھلی اصل میں تو جائز نہیں تھی مگر ہماری اضطراری حالت کے پیش نظر اس کو ہمارے لئے حلال کر دیا گیا ہے ) " حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ " چنانچہ ہم نے اس مچھلی کا کچھ حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح
خبط اصل میں تو خ اور ب کے زبر کے ساتھ لیکن ب کے جزم کے ساتھ بھی منقول ہے ۔ اس کے معنی ہیں " درخت کے پتے جو لاٹھی و ڈنڈے سے مار کر گرائے جائیں ۔ "
حدیث میں مذکورہ واقعہ کا تعلق جس اسلامی لشکر سے ہے اس کو اتنی سخت صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا کہ زاد راہ کے فقدان کی وجہ سے لشکر والوں کو اپنی زندگیاں بچانے کے لئے مجبورا درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے پڑتے تھے یہاں تک کہ اس کی وجہ سے ان کے منہ اور ہونٹ زخمی ہو گئے تھے بلکہ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کے مشابہ ہو گئے تھے ۔ اسی بناء پر اس لشکر کا نام " جیش الخبط " یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والا لشکر مشہور ہو گیا ۔ یہ واقعہ ٦ھ میں صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے ۔
" عنبر " ایک خوشبو کا نام ہے جس کے بارے میں قاموس میں لکھا ہے کہ یہ اصل میں ایک سمندری جانور کا فضلہ ہوتا ہے ، یا یہ ایک خاص قسم کے چشمے سے برآمد ہوتا ہے جو سمندر کی تہہ میں ہے ۔ اور ایک قسم کی بڑی سمندری مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جس کی کھال سے ڈھال بنائی جاتی ہے ۔
" آدھے مہینہ تک ۔ " بعض روایتوں میں " ایک مہینہ تک " کے الفاظ ہیں اور بعض روایت میں یہ آیا ہے کہ لشکر والوں نے اس مچھلی میں سے اٹھارہ دن تک کھایا ۔ ان تمام روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ اس مچھلی میں سے آدھے مہینہ تک تو پورا لشکر کھاتا رہا اس کے بعد لشکر میں سے کچھ لوگ اٹھارہ دن تک اور کچھ لوگ پورے مہینے تک کھاتے رہے ۔