بدشگونی شرک ہے
راوی:
وعن عبد الله بن مسعود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الطيرة شرك قاله ثلاثا وما منا إلا ولكن الله يذهبه بالتوكل . رواه أبو داود والترمذي وقال سمعت محمد بن إسماعيل يقول كان سليمان بن حرب يقول في هذا الحديث وما منا إلا ولكن الله يذهبه بالتوكل . هذا عندي قول ابن مسعود .
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" شگون بد لینا شرک ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زیادہ سے زیادہ ) اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ) یہ بات تین مرتبہ فرمائی تاکہ لوگ اس سے اجتناب کریں اور ہم میں سے جو بھی شخص ایسا ہوتا ہے (کہ جس کے دل میں کبھی بدشگونی کے ذریعہ تردود و خلجان پیدا ہو جاتا ہے ) تو اللہ تعالیٰ اس کو اس پر بھروسہ و اعتماد کرنے سے روک دیتا ہے یعنی یہ ایمان کا تقاضہ ہے کہ کسی کام و سفر کے قصد و ارادہ کے وقت کوئی ایسی چیز ظاہر ہو جائے جس سے بتقاضائے بشریت دل و دماغ میں کوئی وہم اور تردد پیدا ہو تو اس وہم پر قطعا بھروسہ و اعتماد نہ کیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل و یقین رکھتے ہوئے اس کام کو کیا جائے یا اس سفر پر چلا جائے ۔ " (ابوداؤد ، ترمذی ، )
اور ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام بخاری سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میرے استاد و شیخ حضرت سلمان بن حرب اس حدیث کے بارے میں فرماتے تھے کہ حدیث کی یہ عبارت وما منا الا والکن اللہ یذہبہ بالتوکل میرے نزدیک حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے (نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ) ۔
تشریح
" شگون بد لینا شرک ہے " ۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز مشرکین کے طور طریقوں اور ان کی عادات میں سے ہے اور شرک خفی کی موجب ہے ۔ ہاں اگر جزما یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یونہی ہوگا تو وہ شگون بلا شک وشبہ کفر کے حکم میں ہوگا ۔