مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 498

کھنبی کے خواص

راوی:

وعن أبي هريرة أن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا لرسول الله الكمأة جدري الأرض ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم الكمأة من المن وماؤها شفاء للعين والعجوة من الجنة وهي شفاء من السم . قال أبو هريرة فأخذت ثلاثة أكمؤ أو خمسا أو سبعا فعصرتهن وجعلت ماءهن في قارورة وكحلت به جارية لي عمشاء فبرأت . رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن .

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی حضرات نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کھنبی زمین کی چیچک ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (نہیں ) بلکہ کھنبی من کی قسم سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے اور عجوہ (جو کھجور کی سب سے نفیس اور عمدہ قسم ہے ) جنت کی کھجور ہے اور اس میں زہر سے شفا کی خاصیت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنکر ) میں نے تین یا پانچ یا سات کھنبیاں لیں اور ان کو نچوڑ لیا (یعنی کوٹ کر ان کا عرق نکال لیا ) اور اس پانی (عرق ) کو ایک شیشی میں بھر کر رکھ لیا پھر میں نے اس پانی کو اپنی ایک چندھی لونڈی کی آنکھوں میں ڈالنے لگا تو وہ اچھی ہو گئی ۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔"

تشریح
" کھنبی زمین کی چیچک ہے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح چیچک کے دانے دراصل جسم میں پیدا ہو جانے والے ناقص، فضلات ہوتے ہیں جو جلد میں سے باہر نکل آتے ہیں، اسی طرح یہ کھنبی بھی زمین کا فضلہ ہے ۔ جو زمین سے باہر نکل آتی ہے ۔صحابہ نے یہ بات گویا کھنبی کی مذمت کے طور پر کہی ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خیال کو رد کرنے کے لئے کھنبی کی فضیلت و تعریف اور اس کی منفعت بیان فرمائی کہ کھنبی من کی قسم سے ہے یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو بطور احسان عطا فرمائی ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے نہ زمین کو کھودنے بونے کی مشقت کرنا پڑتی ہے اور نہ پانی دینے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے بلکہ یہ خود بخود زمین کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کے کھانے اور پیٹ بھرنے کی ضرورت پوری کرتی ہے ۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کے ذریعہ کھنبی کو اس من کے ساتھ مشابہت دی جو حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر اتری تھی ، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر ان کی محنت و مشقت کے بغیر من اترتی تھی اسی طرح یہ کھنبی بھی تخم ریزی کی محنت ومشقت کے بغیر زمین سے نکلتی ہے یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ الکمأۃ من المن والمن من الجنۃ یعنی کھنبی من کی قسم سے ہے اور من جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔
" اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے " کے بارے میں نووی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک محض کھنبی کا پانی آنکھ کو شفا بخشتا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کا پانی اس صورت میں شفا دیتا ہے جب کہ اس میں آنکھ کے امراض کے مطابق دوسری دوائیں بھی ملائی جائیں، نیز بعضوں کے نزدیک یہ تفصیل ہے کہ اگر آنکھ کو گرمی سے ٹھنڈک پہنچانا مقصود ہو (یعنی آنکھ گرمی کی وجہ سے دکھتی ہو ) تو صرف اس کا پانی ہی مفید ہے ورنہ دوسری صورتوں میں اس کے پانی کو دوسری دواؤں میں ملا کر آنکھ میں ڈالنا مفید ہوگا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر صورت میں کہ آنکھ خواہ گرمی کی وجہ سے دکھتی ہو یا کسی اور وجہ سے محض اس کا پانی شفا بخش ہے، چنانچہ بعض مشائخ کے بارے میں منقول ہے کہ اس کی بنیائی بالکل جاتی رہی تھی اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل اعتقاد رکھتے ہوئے اور اس کو متبرک جانتے ہوئے اپنی آنکھوں میں محض کھنبی کا پانی ڈالنا شروع کیا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن اعتقاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی برکت کی بناء پر ان کی آنکھوں کو شفائے کامل عطا فرمائی ۔

یہ حدیث شیئر کریں