جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت
راوی:
وعن عوف بن مالك الأشجعي قال كنا نرقي في الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك ؟ فقال اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك . رواه مسلم .
اور حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم )
تشریح
جب تک ان میں شرک نہ ہو " کا مطلب یہ ہے کہ جس منتر و افسوں میں جن و شیاطین کے اسماء اور ان سے استعانت نہ ہو اور ان کے مفہوم و معنی ایسے نہ ہوں جن سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ ایسے الفاظ و کلمات پر مشتمل منتر و افسوں کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے ۔ جن کے مفہوم و معانی معلوم نہ ہوں البتہ بعض ایسے منتر جن کے الفاظ و کلمات صحیح روایت میں شارع سے منقول ہیں اور ان کے مفہوم و معانی معلوم نہیں ہیں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ۔
واضح رہے کہ جس طرح شیطان ازل ہی سے انسانی عداوت میں مبتلا ہے اسی طرح جنات بھی بالطبع انسان کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے جنات و شیاطین آپس میں ایک دوسرے کے دوست و رفیق ہوتے ہیں ۔چنانچہ جب کسی انسان پر جنات کا سایہ و اثر ہوتا ہے اور اس سایہ و اثر کو دور کرنے کے لئے ایسے منتر و افسوں پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام اور ان سے استعانت ہوتی ہے تو جنات اس منتر و افسوں کو قبول کر کے اس انسان کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح بعض اوقات مارگزیدہ (سانپ کا ڈسا ہوا ) شخص اصل میں جنات کے زیر اثر ہوتا ہے ، بایں طور پر کہ کوئی شریر جن سانپ کی صورت اختیار کر کے کسی انسان کو ڈس لیتا ہے لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس کو درحقیقت سانپ نے کاٹ کھایا ہے ۔ جب ایسے شخض پر منتر پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام ہوتے ہیں تو وہ زہر جو حقیقت میں جن کا اثر ہوتا ہے اس شخص کے بدن سے زائل ہو جاتا ہے اس طرح گویا جنات وشیاطین دونوں انسان کی گمراہی کا ذریعہ بنتے ہیں ، چنانچہ علماء امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ کتاب اللہ اور اسماء وصفات الہٰی کے بغیر افسوں ومنتر پڑھنا اور جھاڑ پھونک کرنا جائز نہیں ہے ، سب سے زیادہ مہتم بالشان " خود قرآن مجید " ہے کہ اس کا ہر ہر فقرہ اور ہر ہر لفظ کائنات انسانی کے لئے تاثیر وشفا اور خیر و برکت کا خزانہ ہے اور جن کا فائدہ یقینی ہے اور پھر اس میں بھی بعض سورتیں اور آیتیں جھاڑ پھونک کے لئے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں جیسے سورت فاتحہ، معوذتین آیت الکرسی اور وہ آیات کریمہ جو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے مفہوم پر مشتمل ہیں ، اسی طرح وہ دعائیں اور عملیات بھی افضل ہیں جو احادیث صحیحہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ثابت ہیں ۔
سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی ایسے مال و اسباب وغیرہ یا بچے پر نظر ڈالے جو اس کو اچھا لگتا ہو تو چاہئے کہ ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کہے (تاکہ اس مال یا بچے کو نظر نہ لگے ) اسی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت بچے کو دیکھا تو فرمایا کہ اس کی تھوڑی کے گڑھے میں ذرا سی سیاہی لگا دو ، تاکہ اس کو نظر نہ لگے ۔