طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مروج طب میں فرق اور اس کی وجہ
راوی:
اس موقع پر یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ اگرچہ علماء نے حتی الامکان طب نبوی علیہ السلام اور مروجہ طب میں مطابقت و موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں فرق ضرور موجود ہے اسی لئے صاحب سفر السعادۃ نے لکھا ہے کہ طب نبوی (ظاہری طور پر ) طباء کے قواعد و اصول کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتی کیونکہ طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدر وحی الہٰی، قلب نبوت اور کمال عقل ہے ظاہر ہے کہ جو طب وحی الہٰی کے ذریعہ حاصل ہوئی ہو یا جو علاج معالجہ قلب نبوت اور کمال عقل کا بتایا ہوا اس کا کامیاب ہونا اور اس کے ذریعے شفا پانا درجہ یقین کا حامل ہے اس کے برخلاف اطباء و حکماء کی جو طب ہے اور ان کے اصول و قواعد کے مطابق جو علاج معالجہ ہوتا ہے اس کا کلیۃ کامیاب اور افادیت بخش ہونا یقینی درجہ کی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں غلطی و خطا ہونے کا بھی گمان ہے کیونکہ اس طب کی بنیاد انسانی ذہن و تجربہ پر ہے اس اعتبار سے یہ طب اس طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی جس کی بنیاد وحی الہٰی ، قلب نبوت اور کمال عقل ہے ۔
طب نبوی اور مروجہ طب کے درمیان یہی فرق ہے جو بعض مواقع پر کچھ لوگوں کو شک شبہ اور الجھن میں ڈال دیتا ہے چنانچہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مرض کا ایسا علاج تجویز فرمایا ہے جو فن طب کے اصول و قواعد کے خلاف ہے تو وہ مختلف قسم کے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ جس طب کے اصول و قواعد کی بات کرتے ہیں وہ چونکہ انسان کے اپنے ذہن اور اپنی عقل و تدبیر کی پیداوار ہے اس لئے اس میں غلطی و خطا کا ہونا اور حقیقت حال تک نہ پہنچنا عین ممکن ہے جب کہ طب نبوی کا مصدر وحی الہٰی اور قلب نبوت ہے جس میں کسی خطا کا امکان ہی نہیں ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مرض کا جو بھی علاج تجویز فرمایا ہے اس کے بارے میں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا ناقص علم اور ذہن اس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ علاج مرض کے مطابق نہ ہو مثال کے طور پر یہاں حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق بعض اطباء سخت حیرانی اور الجھن میں مبتلا ہوئے ہیں کیونکہ شہد اپنے خواص کے اعتبار سے سہل اور پیٹ جاری کرنے والا ہے لہٰذا دستوں کے روکنے کے لئے شہد پلانے کا حکم نبوی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بظاہر اطباء کے اصول و قواعد کے بالکل خلاف ہے بناء بریں وہ اطباء کہتے ہیں کہ ہر مرتبہ شہد پلانے کے بعد دستوں میں زیادتی کا ہونا اسی وجہ سے تھا کہ شہد اسہال پیدا کرتا ہے ؟ اس بارے میں ایک بات تو یہی کہی جا سکتی ہے کہ یہ ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا جس میں دوا کی تاثیر سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز سے وہی شہد اس کے حق میں شفا یابی کا ذریعہ بن گیا اور وہ اچھا ہو گیا، یہ بات اگرچہ حسن اعتقاد کے نقطہ نظر سے ایک اچھی تعبیر و ترجمانی ہے جو اہل ایمان کو مطمئن کر سکتی ہے اور پھر وہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ محض اس واقعہ پر قیاس کر کے طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مروج طب کے اصول و قواعد کے متضاد قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کے علاوہ اگر فنی نقطہ نظر سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تجویز کردہ اس علاج پر پوری تحقیق اور گہری نظر کے ساتھ غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مریض کو شہد پلانے کا حکم دینا اطباء کے اصول و قواعد کے خلاف نہیں تھا ۔ کیونکہ دستوں کا آنا جس طرح بدہضمی کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح وہ فاسد مادہ بھی دست جاری ہونے کا سبب بنتا ہے جو جمع ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا جو دست معدے میں جمع ہونے والے فاسد مادہ کی وجہ سے آتے ہیں ان کو بند کرنا اور اس مادے کو باہر نکالنا ضروری ہوتا ہے اور اس کا بہترین علاج شہد ہے ۔خصوصًا شہد کو گرم پانی میں ملا کر پلانا بہت مفید ہے کہ وہ مادہ کو دفع کرتا ہے اور خارج بھی کر دیتا ہے پس وہ شخص جو بدہضمی کا شکار تھا اور اس کے معدے میں فاسد مادہ بھی جمع ہو گیا تھا اس کے لئے بہترین علاج یہی تھا کہ شہد پلا کر اس کے معدے میں جمع ہو جانے والا فاسد مادہ نکالا جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو شہد پلانے کا حکم دیتے رہے یہاں تک کہ جب اس کا معدہ فاسد مادے سے بالکل صاف ہو گیا تو وہ اچھا ہو گیا ، اس سلسلے میں یہ بات بطور خاص ذہن میں رکھنے کی ہے کہ علاج معالجہ میں حسن اعتقاد اور معالج کی تشخیص و تجویز پر مکمل اعتبار و بھروسہ بنیادی چیز ہے ، چنانچہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے معالج کے بارے میں بھی کسی قسم کے شک وشبہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس سے حسن اعتقاد نہیں ہوتا تو اس کا مزاج معالج کے اس علاج کو قبول نہیں کرتا اور شفا یابی سے محروم رہتا ہے خواہ وہ معالج کتنے ہی اونچے درجے کا کیوں نہ ہو اس کے برخلاف اگر وہ شخص پورے یقین و اعتقاد کے ساتھ کوئی انتہائی معمولی درجہ کا بھی علاج کرتا ہے تو وہ علاج اس کے لئے فائدہ مند ہو جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنا علاج کرے جس کی کامیابی یقینی ہے اور اس کو اس علاج سے فائدہ نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اس کے ایمان میں کھوٹ ہے اور اس کو یقین و اعتقاد کی نعمت حاصل نہیں ہے ۔ لہٰذا جو شخص اپنے کسی مرض کا علاج طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کرنے کا خواہش مند ہو تو اس کو اپنا یقین کامل اور اپنا اعتقاد مضبوط کرنا چاہئے اور پھر صدق نیت و اخلاص عمل کے ساتھ اس علاج کو اختیار کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں، امراض باطنی و روحانی اور فساد و ذہن کے لئے شفاء کامل کا درجہ رکھتا ہے ۔ لہٰذا جو شخص قرآن کریم کو اخلاص و خلوص کے جذبہ سے سیکھتا ہے اور پڑھتا ہے اس کی تعلیمات پر یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتا ہے ۔ اس کے قلب و روح کو یقینا جلا و شفا حاصل ہوتی ہے، اس کے برخلاف جو شخص عدم اخلاص و قبول اور بے یقینی وبے اعتمادی کے ساتھ قرآن کریم کو سیکھتا پڑھتا ہے تو اس کے باطن میں اور زیادہ برائی اور اس کے قلوب میں اور زیادہ فساد پیدا ہوتا ہے ۔ اسی بناء پر بعض حضرات نے حدیث کے الفاظ کذب بطن اخیک (تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ) کو مریض کے عدم صدق نیت اور عدم خلوص اعتقاد پر بھی محمول کیا ہے یعنی ان حضرات کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ تمہارے بھائی نے چونکہ شہد کو یقین و اعتقاد اور اخلاص و قبول کے ساتھ نہیں پیا ہے ، اس لئے فائدہ ہونے کے بجائے اس مرض میں زیادتی ہو گئی ہے ۔